کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 32
جذبے سے سرشار ہوکر وہ کشاں کشاں منزلیں طے کرتا رہے اور اللہ کی ہیبت اور خوف سے اس کے اعضاء معطل نہ ہوں۔ جب وہ ہوش سنبھالتا ہے،اس کو اس راستے میں جب آگہی حاصل ہوتی ہے ،وہ دیکھتا ہے کہ وہ تو محیط بے کراں ہے اور میں تو ذرا سی آب جو ہوں۔ اس کو اپنے ذرّہ بے مقدار ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
جوں جوں اس راستے میں انسان آگے جاتا ہے ،اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ آقا ہے ،وہ پروردگار ہے۔ محبت اب بھی باقی ہوتی ہے۔ مگر ایسی محبت جیسے کسی غلام کو اپنے آقا سے ہوتی ہے۔ محبت اب بھی موجود ہوتی ہے مگر محبت اس غلام کی سی ہوتی ہے جو گوشۂ چشم سے اپنے آقا کو پیار سے دیکھتا ہے اور اس کی ہیبت بھی اس پر طاری ہوتی ہے اور اس کا جی بار بار کہتا ہے کہ اس کے کتنے احسانات ہیں مجھ پر،کتنے انعامات ہیں مجھ پر،کتنی نوازشیں ہیں مجھ پر جو یہ کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کی عزت وتکریم،اس کا احترام،اس کا ادب،اس کی ہیبت بھی طاری ہوتی ہے۔
حضرت مجد د الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جو سلسلہ نقشبندیہ کے بہت بڑے ستون ہیں،اپنے مکتوب دفتر اول،مکتوب نہم میں مقام عبودیت کے بارے میں فرماتے ہیں۔
”لا جرم مقام عبدیت فوق جمیع مقامات باشد“
یعنی مقام عبدیت تمام مقاموں سے بلند وبرتر ہے۔
آگے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حقیقت بھی سمجھائی کہ یہ مقام سب سے اونچا کیوں ہے۔ ؟