کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 26
کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں استقامت کاپہاڑ بن گیا۔ اسی کے لیے دعا کرتا ہوں: رحم اللّٰه ابا الهيثم سودا قمار ِعشق میں خسرو سے کوہ کن بازی اگرچہ پانہ سکا سرتو کھو سکا! کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز اے رُوسیاہ!تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا پس اس کے آستانے پر جم کر بیٹھنا ،اس کی غلامی پہ ناز کرنا۔ توحید وادب کو یکجا کرنا،مرکزیت کو قائم کرنا،اپنے بزرگوں کی تصنیفات کو زندہ کرنا اور اپنی درسگاہوں سے جو بانجھ ہوگئی ہیں۔ جو بنجر ہوگئی ہیں۔ نکاسی کا سامان کرنا۔ یہ ہیں کام کرنے کے دوستو۔ اس بات کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا کہ نکاسی کیسے ہوگی۔ درسگاہوں سے اہل قلم کیسے نکل سکتے ہیں،مبلغ کیسے پیدا ہوسکتے ہیں، مقرر کیونکر پیدا کیے جائیں ورنہ قحط ہوتا چلا جائے گا دوستو۔ نہ کوئی اہل قلم ملے گا۔ نہ مقرر ملے گا۔ نہ قاری ملے گا۔ نہ محدث ملے گا۔ بانجھ ہوتی چلی جائے گی یہ زمین اگر تم الیکشنوں میں لگے رہے دوستو!یہ باتیں ہیں کرنے کی مرکزیت کو قائم کرنا۔ رُوح کی پُوری گہرائیوں سے اس کے ساتھ وابستگی کو محسوس کرنا۔ جو شخص اللہ اللہ نہیں کرتا ہے اس کے دل کا کھوٹ نہیں جاتاہے۔ اس کو مرکز کے ساتھ وہ وابستگی نہیں ہوسکتی ہے جو اللہ والوں کو اپنے مرکز سے ہوتی ہے۔ یاد رفتگاں یہ درسگاہ حضرت صوفی عبداللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی یاد گار ہے،وہ کس قدر اللہ اللہ کیا کرتے تھے۔ اللہ نے انہیں کیسی عزت بخشی۔ تم الیکشن لڑ لڑ کر ذلیل ہوئے وہ اللہ کے ذکر میں فنا ہوکر مُعزز ہوئے۔ حضرت صوفی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے دل پر عجیب کیفیت طاری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلی مرتبہ میں یہاں تقریر کرنے لگا۔ تو اس وقت کوئی اور صاحب جلسے کی صدارت کررہے تھے۔