کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 242
جمالیاتی پہلو کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ قرآن مجید کے نظریہ حیات میں جمالیات کو ایک مقام حاصل ہے۔ وہ لباس کو ستر کے علاوہ زینت بھی قراردیتا ہے۔ ((يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا)) (الاعراف:26) (اے اولاد آدم!ہم نے تمھارے لیے لباس فراہم کیا جو تمھارے پردے کی جگہوں کو چھپاتا ہے اور زینت کا سامان بھی ہے) قرآن مجید تو ہم سے یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ جب ہم خدا کے حضور جائیں تو سنور کر جائیں۔ ((خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)) (ہر نماز کے وقت سنور کر جایا کرو) اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی نقطہ نظر سے مقصدیت Functionalism اورافادیتUtiilicarianismہی کو اولیت حاصل ہے لیکن مقصدیت اور افادیت کے ساتھ ساتھ جمالیاتی پہلو کا ذکر بھی قرآن بار بار کرتا ہے۔ مثلاً سورہ النحل میں دیکھے۔ بہائم کی افادیت کا ذکر پہلے کیا اور پھر ساتھ ہی کہا کہ صبح اور شام کے دھندلکےمیں مویشیوں کا چلتا ہوا گلہ تمھارےلیے ذوق نظر کا ساماں بھی ہے۔ ((وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ)) (اسی نے تمھارے لیے چوپایوں کو پیدا کیا جن کی اُون تمھیں گرم رکھتی ہے اور ان کے اور بھی کئی فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو اور جب شام کے وقت تم انھیں چرا کر گھر واپس لاتے ہو اور جب صبح کو چرانے لے جاتے ہو تو ان میں تمھارے لیے ایک حسن اور رعنائی بھی ہے۔ ) یہ قرآن جو کائنات کے جمالیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے،خود بھی تو اپنے اسلوب اور آہنگ کے اعتبار سے حسن و جمال کا ایک عظیم شاہکار ہے۔