کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 240
اُس نے ہمیں چلنے کا سلیقہ بھی سکھایا:
((وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا)) (لقمان:18)
زمین پر اکڑتے ہوئے مت چلو۔ بلاشبہ اس متکبرانہ چال سے تم نہ تو زمین میں شگاف ڈال سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کے برابر لانبے ہوسکتے ہو۔ یعنی اس عظیم کائنات میں اپنی حقیقت کو پہچانو،پھر سوچو کہ کیا یہ چال تمہیں زیبا ہے۔
قرآن مجید نے گفتگو کا طریقہ بھی سکھایا:
((وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ)) (لقمان:19)
”یعنی بات کرتے ہوئے آواز کو دھیما رکھا کرو،گدھوں کی آواز یقیناً نہایت بھدی اور بھونڈی ہوتی ہے۔ “
جہاں زندگی کے اہم سے اہم امور میں رہنمائی فرمائی۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی بساتوں میں بھی خیر کی راہ سمجھائی ۔ تلقین کی کہ دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہواکرو۔ محفل میں بیٹھنے کے آداب بھی اس لافانی کتاب نے سکھائے:
((إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا)) (المجادلۃ:10)
”سرگوشی پر شیطان ہی اُکساتا ہے تاکہ وہ مسلمان کو رنجیدہ کرے“
اگر دو آدمی مجلس میں بیٹھ کر سرگوشیاں کریں،تو دوسروں کے جی میں خیال آتا ہے۔ کہ شاید ہماری نسبت کچھ کہہ رہے ہیں۔ کم از کم یہ گمان تو ہوتا ہی ہے کہ انھوں نے ہمیں اس قابل نہ سمجھا کہ اپنی اس رازداری کی گفتگو میں شریک کریں۔ چونکہ اہل مجلس کو اس سے خفت ہوتی ہے اس لیے قرآن مجید نے مجلس میں بیٹھ کر سرگوشیوں سے باز