کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 24
فراق ووصل چہ باشد رضائے دوست طلب کہ حیف باشد از وغیر او تمنائے ”فراق اور وصل کیا چیز ہے!دوست کی رضا مانگو ۔ حیف ہے جو اس سے اس کے سوا کسی اور کی آرزو کرو۔ “ اگر ذاکر ہر وقت کیف اور لذّت کی حالت میں رہے تو اس میں غرور اور کبر پیدا ہوجائے اور ابلیس کی طرح راندۂ درگا ہ ہو۔ یہ بے کیفی بھی اس کی ربوبیت ہے کہ اس بے کیفی کی حالت میں انسان کو اپنی اوقات معلوم ہوتی ہے اور اس میں عجز ونیاز پیدا ہوتا ہے۔ بدرووصاف تُرا حکم نیست دم درکش ہرآنچہ ساقی ماریخت عین الطاف است ”تم دم سادھے رہو اور ساقی سے مت کہو کہ مجھے تلچھٹ پلاؤ یا مئے صافی دو۔ ساقی کی شفقت پر ایمان لاؤ وہ جو کچھ تیرے پیالے میں ڈالتے ہیں عین لطف وکرم ہے۔ “ یہ فراق اور وصل کی منزلیں،یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ ایک عارف کہتا ہے۔ ہمینم بس کہ داندہ ماہ ر ُویم کہ من نیز از خریداراں اُویم فرماتے ہیں کہ میں تو اسی بات پر وجد میں ہوں کہ میرا محبوب جانتا ہے کہ میں بھی اس کے طلب گاروں میں ہوں۔ اصل بات اس کے آستانے پر جم کر بیٹھنا ہے اور اس کے ذکر میں لگے رہنا ہے۔