کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 238
پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔
اور کہا:(( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ))
”تم جہاں بھی جاتے ہو میں تمہارے ساتھ ساتھ ہوتا ہوں“
پھر زیادہ وضاحت سے کہا:
((وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ)) (ق:16)
”ہم تو تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہیں“
اس قدر ناقابل ادراک ہونے کے باوجود خدا کی انسان کے ساتھ اس معیت واقربیت میں ایک فنی حسن نظر آتا ہے۔ جیسے ایک فارسی کے شاعر نے کہا:
بامن آویزش اوالفت موج است وکنار
دمبدم بامن وھر لحظہ گریزاں از من
(میرے ساتھ اس کا لپٹنا یوں ہے جیسا کہ دریا کی موج کنارے سے لمس کرکے لوٹ آتی ہے۔ وہ ہر لحظہ میرے ساتھ ہے اور میں جب اس کا دامن تھامنے لگتا ہوں ،تو وہ میرے ہاتھ میں نہیں آتا۔ )
قرآن مجید کی اس آیت نے آتش ِ شوق کو اور بھی بھڑکا دیا کہ:
((إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ)) (الفجر:41)
”بلاشبہ تیرا پروردگار تو تجھے ہر دم جھانک لگائے تاک رہا ہے“
قرآن مجید نے بتایاکہ گو اس کی ذات انسانی ذہن کی گرفت میں نہیں آتی اور جو تصور بھی ذہن میں لائیں گے۔ وہ بت ہوگا خدا نہ ہوگا،مگر اس کا حضور،اس کا لمس،اس کا اتصال تو دم بدم ہمیں محسوس ہوناچاہیے جیسے مولائے روم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
اتصائے بے تکیف بے قیاس
ہست رب الناس رابا جانِ ناس
”انسانوں کے پروردگار کا ان کی روح سے ایسا تعلق اور رابطہ ہے جس کی کیفیت بیان اور قیاس سے باہر ہے۔ “