کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 237
صفات الٰہی
قرآن مجید نے انسان کو اللہ کی تمام صفات تنزیہیہ اور ایجابیہ کی معرفت بخشی۔ قرآن مجید نے انسان کو صفات الٰہی کا تمام صحف آسمانی سے زیادہ مفصل اورجامع تصور بخشا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ:
((الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ))
ہے۔ یعنی وہ بادشاہ ہے،وہ خدا وند قدوس ہے ،وہ سلامتی اور امن دینے والا ہے،وہ نگہبان ہے،وہ غالب اوردبدبے والا ہے اور کبریائی اسی کو زیبا ہے۔ ۔ ۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ((هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِی ئُ الْمُصَوِّرُ)) ہے،وہ خالق کائنات ہے،وہ موجد کائنا ت ہے،وہ صورت گرموجودات ہے۔ قرآن نے صفات الٰہی کے تمام سلبی اور ایجابی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
ذات الٰہی کا تصور
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا جو تصور بخشا وہ بہت لطیف ہے۔ قرآن نے کہا!
((لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ)) (الانعام:103)
آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتی ہیں وہی ہے جو آنکھوں کا ادراک کرتا ہے۔
ذہن اپنا مواد(DATA) حواس ہی کے ذریعے اکٹھا کرتا ہے۔ جب اس کی ذات حواس کی گرفت میں نہیں آتی ہے۔ تو ذہن اسے تصور میں کیونکر لا سکتا ہے۔ پھر((لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ))”اس جیسی تو کوئی چیز نہیں“ کہہ کر تشبیہ کے سب دروازے بھی بند کردیے اور ((فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ)) (النمل:74) کہہ کر حکماً بند کردیا کہ یہ بھی مت کہو کہ وہ ایسا ہے وہ اس جیسا ہے،اس جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے۔ اگر قرآن صرف اتنی بات کہتا تو انسان محسوس کرتا کہ ا س کے ذہن کے اٹکاؤ کے لیے کوئی سہارا باقی نہیں چھوڑا۔ مگر اس نے ساتھ ہی کہا:
((فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ)) (البقرة:186)
میں تو تیرے قریب ہوں تو مایوس کیوں ہوتا ہے ۔ میں توہر