کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 236
ان کے اصول حفظان صحت میں کوئی تغیر نہیں ہو سکتا۔ کچھ باتیں ہیں جن کے کرنے سے ہماری روح کی صحت بگڑتی ہے اور کچھ باتیں ہیں جن کے کرنے سے ہماری روح کی صحت سنورتی ہے۔ ہم انھیں مستقل اخلاقی قدروں سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی وہ جوہر دین ہے جس کا پر چار تمام انبیاء کرتے رہے اور انھی اقدار کو قرآن مجید نے جامع مفصل اور آخری ارتقائی صورت میں پیش کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے انبیاء کی تعلیمات کی تردید نہیں کی ان کی تصدیق اور توضیح کی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
((مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ)) (البقرۃ:97)
(وہ اپنے سابقہ انبیاء کی تصدیق کرنے والے تھے)
اور کہا: ((مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ)) (الاحقاف:9)
(آپ کوئی انوکھے پیغمبر نہیں ہیں)
وہ مستقل اور روحانی اقدار جن کا پر چار قرآن مجید نے کیا دو حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں۔
حقوق اللہ
اللہ کے حقوق یہ ہیں کہ اس کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو۔ انسان اس کی محبت سے سرشار ہو۔ اس کی عبادت کا ذوق پیدا ہو۔ اس کے حضور میں بیٹھنے کا ڈھنگ آجائے۔ اس کے ساتھ تعلق استوار ہو اور اس کی بندگی اور چاکری کا ذوق انسان کے رگ وریشے میں رچ بس جائے۔
حقوق العباد
فیضان الٰہی سے سرشار ہوکر اس کی مخلوق کی خدمت بجا لائے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرے۔ انبیاء اور اہل اللہ کی تاریخ گوای دیتی ہے کہ ذکر الٰہی کی خاطر گوشہ نشینی وخلوت گزینی،مخلوق الٰہی کی خدمت کا ایک سچا اور شدید جذبہ انسان میں ابھارتی ہے اور مخلوق الٰہی کے لیے انسان کے اندر ایک مامتا کو جنم دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس راتوں کی عبادت کے بعد بنواسرائیل کو بھر پور فیضان بخشا۔ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسّلام غار حرا سے نکلے تو بنی نوع انسان کو بے پناہ مادی اور روحانی فیضان بخشا اور ان کی پیاسی روحوں کو سیراب کیا۔ قرآن مجید نے اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے تمام قرینے انسان کو سکھائے۔