کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 234
لیکن چند آیتوں کے با وزن ہونے کی بنا پر قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی نثر نگار کے قلم سے اور مقرر کی زبان سے بھی بعض فقرے باوزن نکل جاتے ہیں۔ جیسے اعجاز القرآن میں باقلانی نے مثال دی ہے کہ کبھی ایک عامی کی زبان سے بھی نکل جاتا ہے: ((اسْقِني الماءِ يا غلام سريعاً))[1] (او لڑکے! پانی جلدی سے پلاؤ)یہ قول باوزن ہے لیکن اس عامی کو شاعر کوئی نہیں کہتا۔ مجھےیاد ہے کہ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے اختتا م پر مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہا:یہ بندہ فقیر سراپا سپاس ہے۔ حاضرین مجلس میں ایک شاعر بھی تشریف فرما تھے وہ جھٹ سے بول اٹھے کہ یہ تو مصرعہ ہو گیا ، لیکن چونکہ ساری بات میں نے نثر میں کی تھی۔ اس ایک جملے کے باوزن ہونے کی بناء پر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں نے شعروں میں گفتگو کی ہے۔ پس قرآن مجید کے تیس پاروں میں سے گنتی کی چند آیتوں کے باوزن ہو جانے کی بناء پر قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی ہے۔ ((وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ)) (يٰسين:69) (ہم نے انھیں شاعری نہیں سکھائی اور ان کی شان کے وہ شایاں بھی نہ تھی) اگلا سوال ایک طالب علم کے ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ اگرقرآن مجید شعر کی کتب نہیں ہے تو کیا وہ نثر کی کتاب ہے؟نثر کا آہنگ تو ایسا نہیں ہوتا ہے۔ نثر میں یہ موسیقیت تو نہیں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے بجا کہا تھا۔ ((القرآن ليس بشعر وليس بنثر بل القرآن قرآن)) قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن مجید نثر کی کتاب نہیں ہے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم کہیں قرآن قرآن ہے۔ اس کا اسلوب منفرد ہے۔ اس کا آہنگ انوکھا اور اچھوتا ہے جیسے خدا اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا ہے۔ اس کا اسلوب بھی یکتا ہے۔ ((لا ندله
[1] ۔ صفحہ 83۔