کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 233
الْخَنَّاسِ ﴿4﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿5﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ))سورت پڑھتے ہوئے اول سے آخر تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سر گوشیاں کر رہا ہے اور یہ بات حرف سین کی تکرار سے پیدا ہوئی ہے۔
قرآن مجید کا آھنگ
قرآن مجید کی صوری رعنائیوں میں سے ایک ابھری ہوئی رعنائی قرآن مجید کا اسلوب ہے اور اس کے اسلوب کی سب سے ابھری ہوئی خصوصیت اس کا آہنگ ہے۔ اس کے اسلوب کی موسیقیت ہے۔ قرآن کا آہنگ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ یہ آہنگ کن عناصر سے ترکیب پایا ہے؟یہ ایک تفصیل طلب بات ہے اوراس مختصرمقالے میں اس کی گنجائش نہیں۔
فرخندہ شبے بایدو خوش سہتائے
تابا تو حکایت کنم از ہر بابے
ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان نے بحورو ازان کے جتنے سانچے شعر کے لیےتراشے قرآن کا اسلوب ان سب سے ہٹا ہوا ہے وہ کسی بحر میں نہیں ہے۔ نہ طویل نہ بسیط نہ رجز نہ رمل۔ شاید آپ کے جی میں خیال آئے کہ نظم آزاد کا قالب بھی تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور نظم آزاد بھی تو شاعری ہی کی ایک صنف ہے۔ پھر یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن شعر کی کتاب نہیں ہے۔ جی میں یہ خیال نظم آزاد کی حقیقت سے ناواقفیت ہی کی بنا پر آسکتا ہے۔ نظم آزاد گو ایک بحر میں نہیں ہوتی ہے اور ہر مصر عہ جدا بحر میں ہو سکتا ہے لیکن ہر ہر مصر عہ باوزن ہوتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ نظم آزاد کا کوئی بسم اللہ سے الناس تک تمام آیتیں انسان کے تراشے ہوئے اوزان سے ہٹ کر ہیں۔ پس نظم آزاد کا اطلاق بھی قرآن مجید پر نہیں ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید کی چند آیتیں باوزن ہیں مثلاً
((هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ)) (المؤمنون:36)
((وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا)) ((وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا)) (الانسان:14)