کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 230
اسلوب کے وہ محاسن جو اہل علم بڑی مغز پاشی کے بعد آج مرتب کر رہے ہیں، وہ تمام محاسن قرآن مجید میں بطریق احسن موجود ہیں۔ قرآن مجید کو بسم اللہ سے والناس تک دیکھا۔ اس میں کوئی فالتو لفظ نظر نہیں آیا۔ وہ حشو و زوائد سے یکسر پاک نکلا۔ قرآن مجید نے جہاں کہیں ایک سے زائد لفظ استعمال کیے ہر لفظ مختلف مفہوم کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً فرمایا: ((تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا)) (حٰم السجدة:30) ”فرشتے ان پر اترتے ہیں اور یہ القا کرتے ہیں کہ تم خوف نہ کھاؤ اور غم نہ کرو“ یہاں جو ((أَلَّا تَخَافُوا)) کے بعد ((وَلَا تَحْزَنُوا)) کہا تو اس لیے کہ دونوں لفظوں کا مفہوم مختلف ہے۔ خوف اور چیز ہے اور حزن اور چیز ہے۔ خوف یہ ہے کہ مستقبل میں کسی آفت کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہو اور غم یہ ہے کہ بالفعل دل کی تمنا ہاتھ سے نکل جائے۔ پھر لفظ غم خوشی کے مقابل بولتے ہیں اور خوف اطمینان کی ضد ہے۔ کسی عزیز کے فوت ہونے پر جو کیفیت ہوتی ہے، اسے غم کہتے ہیں، خوف کوئی نہیں کہتا۔ اگر کسی کا بچہ منڈیر پر چڑھا ہوا ہو اور اس کے گرجانے کا خدشہ ہو، تو اسے عربی میں خوف سے تعبیر کریں گے اور اسے غم کہنا بالکل غلط ہوگا۔ خوف اور غم میں حد فاصل یوں بھی کھینچی ہے کہ عین مصیبت کے وقت جو حالت ہوتی ہے اسے غم کہتے ہیں اور خوف اس وقت ہوتا ہے جب مصیبت کی آمد آمد ہو۔ پس قرآن مجید میں جہاں کہیں دو یا دو سے زائد لفظ اظہار مطلب کے لیے آئے ہیں، ہر لفظ کی معنویت اور افادیت جدا ہے۔ جی میں وسوسہ آیا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں الرحمان اور الرحیم دو لفظوں کی ضرورت کیا تھی!محض الرحمان یاالرحیم کہنے سے کیا بات مکمل نہیں ہو جاتی؟ لغت کی مستند کتابیں دیکھنے سے معلوم ہوا کہ رحمان اور رحیم کا مفہوم جدا ہے رحمان فعلان کا وزن ہے اور یہ وزن امتلا کے لیے آتا ہے اور رحیم فعیل کا وزن ہے اور یہ وزن ظہور کے لیے آتاہے۔ پس رحمان کے معنی یہ ہوئے کہ وہ رحمت کا منبع ہے وہ رحمت کا سر چشمہ ہے اور رحیم کے معنی یہ ہوئے کہ اس کی رحمت کا ظہور اس