کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 229
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیمُ
جب ہم کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو باتیں دو ہی ہیں جن کا ہم جائزہ لیتے ہیں:
(1)صوری محاسن یعنی اسلوب کیسا ہے؟تر کیبیں اور بندشیں کیسی ہیں؟ مفہوم کی ادائیگی کے لیے الفاظ کا چناؤ کیسا ہے؟صنائع اور بدائع کی پختگی اور رعنائی کا کیا حال ہے؟
(2)دوسری بات ہم یہ جانچتے ہیں کہ ان مطالب اور معانی کا وزن کیا ہے جن کے لیے صورت FORM کے یہ سانچے تیار کیے گئے ہیں۔
پہلے ہم قرآن مجید کے صوری محاسن کا اجمالی جائز لیتے ہیں۔
قرآن مجید کے صوری محاسن
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید کی بلا غت پر جو کتابیں ہمارے اسلاف نے لکھیں وہ ایک گراں بہا سر مایہ ہیں۔ خطابی ، رمانی ، باقلانی عبدالقاہر جرجانی اور بعض دوسرے علماء نے قرآن مجید کی بلاغت پر جو کام کیا قابل تحسین ہے۔ لیکن ہر دور کا ایک انداز فکر ہوتا ہے۔ زبان اور ادب کی بحثیں ہر زمانے میں مختلف ہوتی ہیں۔ مجھے جو کچھ کہنا ہے اسی دور اور اسی ماحول میں تعلیم و تربیت پانے والے زبان و ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کہنا ہے۔
حشو و زوائد سے پاک ہے۔
تنقید کی کتابوں میں ہم نے پڑھا تھا کہ ہر لفظ جو ہم لکھیں یا بولیں اس کی کوئی مقصدیت اور افادیت ہونی چاہیے اور ایک ہی مفہوم کی ادائیگی کے لیے مترادف لفظوں کی بے سبب بھر مار کرنا تخیل کی رفتار سست ہونے کی علامت ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ اس انداز سے کیا تو حیرت ہوئی کہ