کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 225
گناہ کرنے کے بعد انہیں خجالت اور ندامت ہوئی ہو۔ اور گناہگاروں کو بھی گناہ کرنے کے بعد خجالت ہوتی ہے اور آنسو ان کے نکل آتے ہیں۔ مگرآنسوؤں کے نکلنے سے کسی کے اخلاق کا پتہ نہیں چلتا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیاں پڑھنی چاہئیں ا سے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مُحبت کا ڈھنگ کیا ہے۔ کیسے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ جنھوں نے اپنا سب کچھ لُٹایا۔ جان مال۔ غزوات کو پڑھیں۔ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ غزوہ اُحد میں دَم توڑ رہے تھے۔ اس وقت ان کے قبیلے کے لوگ آئے اور کہاسعد رضی اللہ عنہ بتاؤ کیا چاہتے ہو؟سعد رضی اللہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچادینا۔ لوگوں نے کہا آخری نصیحت کیاہے؟فرمایا کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر جانوں کو نچھاور کرتے رہو۔
عمارہ بن زیاد رضی للہ عنہ اُحد میں دم توڑ رہے ہیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے ہیں اور کہتے ہیں عمارہ رضی اللہ عنہ کوئی آرزو ہوتوکہو؟حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ اپنے زخمی جسم کو گھسیٹ کرقدموں پررکھ دیتے ہیں۔ اوروہیں جان دے دیتے ہیں۔ منُہ سے کچھ نہیں کہتے۔ گویا بزبان حال یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی آرزو ہے تو یہی ہے کہ میرا سرہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم ہوں۔ ؎
چہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مند ہے
کہ وقت جان سپرون سبرش رسیدہ باشی
عارف نے کہا اس شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ دُنیا سے جارہا ہو اور اُس کا محبوب اس کے سرپر کھڑا ہو اور پوچھ رہا ہو کہ بتاؤ تیری کیا آرزو ہے؟
عورتوں تک کا یہ حال تھا۔ غزوہ اُحد میں ایک عورت تھی جس کو یہ خبر ملی کہ تیراباپ شہید ہوگیا،تیرا خاوند شہید ہوگیا،تیرا بھائی شہید ہوگیا، تینوں لاشے پڑے ہیں وہاں سے اٹھوالو۔ وہ پوچھتی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک ہیں؟اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے انور پر نظر پڑی تو فقرہ منہ سے نکلا۔ جسے ہر مستند مورخ نے نقل کیاہے۔ اس نے وجد میں آکر کہا۔ (( كُلُّ مُصِيبَةٍ