کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 224
دوستو! یہ ہے محبت کا غلبہ اس کے بغیر سلوک کا راستہ طے نہیں ہوتا۔ یہ معنیٰ ہے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کےفرمان کا۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)اوپنہاں وتوپیدائے من۔ توظاہر وباہرہے تو ہمیں نظر آتا ہے۔
مستند مورخین نے لکھا ہے کہ جب ابوبکررضی اللہ عنہ ہجرت کے لیے چلے ہیں تو چلتے چلتے یکایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوگئے ہیں،پھر یکایک ان پر کیفیت طاری ہوئی اور اُن کے آگے چلنے لگے۔ کچھ دیر تو حضورچپ رہے پھر کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ کیا کررہے ہو کبھی آگے ہوجاتے ہو کبھی پیچھے ہٹتے ہو ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیچھے سے حملہ آورنہ ہوتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوجاتا ہوں،پھر جب خیال آتاہے کہ دشمن آگے سے حملہ آور نہ ہو جائے تو میں آپ کے آگے آجاتا ہوں تاکہ وہ مجھ کو قتل کردیں ،کہیں تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ لگ جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ !تم یہ چاہتے ہو کہ میں بچ جاؤں اور تمہیں قتل کردیا جائے،فرمایا۔ خدا کی قسم میں یہی چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچ جائیں اور میں قتل کردیا جاؤں۔ مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے”سیرت المصطفےٰ“ میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے تمام مستند تواریخ کے حوالے دے دئیے ہیں (اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے)
کسی کے آنسوؤں پر مت جائیےکسی کی لرزش اور کپکپی پہ نہ جائیے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت ایسی نہ تھی کہ محض آنسوؤں سے اس کا اظہار ہوتا۔ آدمی کے برتاؤ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کی محبت کا درجہ حرارت کیا ہے؟اس لیے دوستی کو بھی ہمیشہ معاملات میں پرکھا کریں اور جانچا کریں اور معاملات میں محبت کا درجہ حرارت بڑی آسانی سے متعین ہوجاتا ہے ۔ آنسوؤں پر مت جاؤ۔ بزرگوں نے کہا آنسو تو برادرانِ یوسف نے بھی بہائے تھے قرآن مجید میں لکھا ہے کہ وہ عشاء کے وقت آئے اور سب رورہے تھے۔ (( وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ)) یہ نہیں فرمایا۔ (( یتباکون)) کہ جھوٹے آنسو بہارہے تھے سچ مچ رورہے تھے۔ عین ممکن کہ