کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 223
لوگ جب چلے گئے تو ام الخیر آپ کی والدہ نے کہا بیٹا روٹی تو کھالو سارے دن کے بھوکے اور پیاسے ہو۔ اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ فقرہ کہا:۔
((فإن لله علي أن لا أذوق طعامًا ولا أشرب شرابًا أو آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم))
ماں مجھے روٹی اچھی نہیں لگتی میں خُدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کا ایک لقمہ نہیں کھاؤں گا۔ پانی کا گھونٹ میرے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نہ دیکھ لوں۔ یہ ام الخیر سے کہا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت بڑے غور سے پڑھا کرو۔ بڑی لطافتیں اور باریکیاں ہیں۔ کاش کے کوئی ان باریکیوں کو نکالے کتنے آداب ہیں عشق کے جن کو وہ ملحوظ رکھتے تھے اور وہ تنہا ان کو ملحوظ رکھتے تھے۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ معرفت بخشی ان کی سیرت پڑھتے ہوئے۔ ان کو جو مقام صدیقیّت حاصل ہوا ان میں بہت بڑا حصہ ان آداب کی لطافتوں اور باریکیوں کا ہے جو وہ بارگاہ رسالت میں ملحوظ رکھتے تھے۔ اوربعض کو ملحوظ رکھتے ہیں وہ یکہ و تنہا تھے اور کوئی صحابی ان کا سہیم و شریک نہ تھا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دارارقم میں ہیں۔ زخموں سے چور تھے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ ذرا خبر توکرو ان کی۔ میری بیمار پُرسی کے لیے آئیں۔ یہ نہیں کہا۔ ام الخیر کے ٹیک لگائے ہوئے اور گھسٹتے ہوئے دارارقم میں پہنچے اس کو خلاف ادب سمجھاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں کہ میری عیادت کے لیے آؤ۔ اس حالت میں بھی گھسٹتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔
((فأكب رسول الله صلي الله عليه وسلم))”وہ تمام ماؤں کی مامتا“وہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آکر دارارقم میں گر گئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر جھک گئے۔ ((فقبله)) ان کو چومتے تھے۔ (( ورقَّ له رسول الله صلى الله عليه وسلم رِقَّةً شديدة،)) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید رقت طاری ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگریہ طاری تھا اورصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو چومتے چلے جاتے تھے۔