کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 221
ان کا وجود ظاہر ہے ان کا جسم ظاہر ہے،ان کا مکھڑا ظاہر ہے۔ ان کا ناک نقشہ ظاہر ہے،ان کے تمام اوصاف ظاہر ہیں ان کے غزوات ،ان کے تمام افعال ظاہر ہیں جن کا لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کیا۔ سلوک کا راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،ان کے عشق اور ان سےوالہانہ شیفتگی ہی سے آسانی سے طے ہوتا ہے،خود اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اسی راستے سے سہولت سے ملتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سیکھنا چاہیے۔ وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ نبوت کے بعد صدیقیت سے اُونچا کوئی مقام نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم تھے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ غیر معصوم تھے ۔ انسان غیر معصوم ہوتے ہوئے کسی حد تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات،صفات اور افعال میں فنا ہوسکتا ہے۔ یہ بات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی سیرت ہی سے اخذ کرنی چاہیے۔ اس لیے ان کی شخصیت کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو سید الاولین وسید الآخرین تھے۔ وہ تو سرور دنیا ودین تھے وہ تو کبھی یہ بھی فرماتے تھے۔ (( أيُّكُمْ مِثْلِي ؟)) تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے، تم سے یہ بات نہ ہوسکے گی،چھوڑدو اس بات کو یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ یہ غیر معصوم انسانوں کی آخری حد ہے جہاں تک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے۔ اس لیے میں طالبوں سے کہا کرتا ہوں کہ ان کی سیرت کا مطالعہ غور سے کیا کرو۔ ہماری سرحدیں تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک ہیں آگے تو وہ مقام ہے جہاں بار بار فرماتے ہیں۔ (( أيُّكُمْ مِثْلِي ؟)) تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے ،صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھئے کہ انھوں نے جو کچھ پایا سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں فنا ہونے سے پایا۔ جیسا کہ ”البدایہ والنہایہ“میں حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اسلام کا ابھی آغاز تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی اس کی بنا پر باربار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں بتاؤں کہ آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہوچکا ہے اور یہ آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہے جو اس سے