کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 220
معرفت ہوئی اور ان سے محبت اس بناپر ہوئی کہ وہ خدا کے محبوب ہیں وہ خدا کے رسول ہیں جیسا کہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ((لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي، وَقَدِ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا))اگر تم لوگوں میں سے کسی کو محبوب بنانا ہوتا تو میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو محبوب بناتا ۔ مگر وہ میرا بھائی ہے میرا ساتھی ہے، میں یہ کیسے کہوں کہ وہ میرا محبوب ہے۔ (( وَقَدِ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا)) اللہ تعالیٰ نے تمھارے اس ساتھی کو اپنا محبوب بنا لیا ہے جب اس نے مجھے اپنی محبوبیت کے لیے چن لیا ہے تو میرے لیے یہ کہاں روا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کو اپنا محبوب کہوں۔
اس سلسلے میں تصوف کا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ (؟؟؟) سےConcrete تک پہنچتے ہیں۔ لوگ اس حقیت کُبریٰ سے حقیقتِ محمدیہ تک پہنچتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے خدا تک پہنچتے ہیں۔ جیسا کہ مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے خدا تک پہنچے۔ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی حال تھا ۔ اُنھوں نے واضح طور پر فرمادیا۔
یارسول اللہ!اوپنہاں و تو پیدائے من
اے رسول اللہ ۔ خداتو پنہاں ہے،اس کی ذات تو چھپی ہوئی ہے۔
((لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ)) آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتی ہیں وہی ہے جو آنکھوں کا ادراک کرتا ہے۔
((فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ)) فرمایا اللہ کے لیے مثال بھی مت دو کہ وہ ایسا ہے وہ اس جیسا ہے،اس جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے۔
فرماتے ہی۔ اوپنہاں وتو پیدائے من۔ ۔ ۔ اس کی ذات تو چھپی ہوئی ہے۔ آپ کی ذات ظاہر وباہر ہے کہ مجھے نظر آرہی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی محبت کے ذریعے سے اللہ تک پہنچنے کا راستہ آسان بہت ہے۔ اس لیے کہ ان کی صفات ظاہر ہیں۔