کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 219
نے کہا۔ ((قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ))آپ ان سے کہہ دیجئے، تمھارے آباؤ اجداد ، تمھارے بھائی بندے ،تمھاری بیویاں یہ مال جو تم نے کما رکھا ہے، یہ تجارت جس کے منداپڑجانے کا تمھیں کھٹکا لگا رہتا ہے یہ عمارتیں، یہ بود و باش کی جگہیں جو تمھیں بھلی معلوم ہوتی ہیں اگر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تمھیں زیادہ پیاری ہیں تو۔ ((فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ))تم انتظار کرو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم کو نافذ کرے۔ ((إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ))فرمایا وہ لوگ سر کش ہیں نافرمان ہیں اور اللہ ایسے نافرمانوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ وہ تمام کمزوریاں انسان کی جو توحید کے بارے میں ہو سکتی ہیں۔ انہیں بیان فرمایا۔ کہ دیکھو کبھی اللہ کی محبت کی ٹکرباپ دادا کی محبت سے ہو سکتی ہے کبھی برادری کی محبت سے ہوتی ہے۔ برادری کی ریتوں سے ٹکرہوتی ہے کبھی بیویوں کی خواہشات سے اللہ کی محبت کا تصادم ہوتا ہے کبھی تجارت کے فروغ کے تقاضے کچھ ہوتے ہیں اور کتاب اللہ کا حکم کچھ ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح کبھی ہجرت کا حکم ہوتا ہے اور آدمی عمارتوں کی طرف دیکھتا ہے کہ اللہ کے لیے ان کو کیسے چھوڑوں۔ یہاں دونوں باتوں کا ذکر فرمایا۔ ((أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ)) معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی محبت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کا تصادم ہو جائے ، ٹکراؤ ہو جائے تو دنیا کی تمام چیزوں کو انسان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی خاطر چھوڑ سکے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے۔ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت بھی جز و ایمان بلکہ عین ایمان ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے ہیں کچھ طالب سالک اور عارف ایسے ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تک پہنچتے ہیں۔ یہ مزاج کا اختلاف ہے اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔ جیسے رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ تھیں۔ وہ اللہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تھیں۔ یعنی اللہ کی معرفت پہلے حاصل ہوئی اور پھر اللہ کی معرفت سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی