کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 217
میری طرف دیکھنا بھی چھوڑدیں، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ کی گیارہویں جلد میں اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے اور اس سے استشہاد کیا ہے۔ آپ نے غور کیا کہ سوئے ظن کی وجہ عقل کی ناپختگی ہے۔ یہی وجہ ہے آپ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کی تربیت حضور علیہ السلام نے فقر کے راستے سے کی۔ بعض لوگوں کی تربیت نعمتوں اور نوازشوں کے راستے سے کی۔ یہی حال پیغمبروں کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایو ب علیہ السلام کی تربیت صبر کے راستے سے کی۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی تربیت صبر کے راستے سے کی۔ حضرت داؤد اور سلیمان علیہ السلام پر نعمتوں کی بوچھاڑ کی۔ آپ دیکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مختلف انسانوں کی تربیت کس طرح مختلف طریقوں سے کی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کھجوریں کھار ہے ہیں اور کچھ لپیٹ کر رکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ کیا کر رہے ہو؟ عرض کیا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھجوریں رکھ دی ہیں۔ پھرکام آجائیں گی۔ فرمایا۔ ((أَنْفِقْ يَا بِلَالُ،))فقیر ہو کر کھجوریں رکھ رہے ہو۔ ((وَلَا تَخْشَ منْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا)) اس عرش والے سے تمھیں مفلسی کا ڈر ہوا ہے؟جاؤ انہیں خرچ کردو یہ فقیری کے منافی ہے کہ انہیں لپیٹ کے رکھ دو۔ یہ بات عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کبھی نہ کہی۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے سے کبھی نہ کہی۔ ان کا راستہ دوسرا تھا۔ جیسا کہ اس حدیث سے وضاحت ہوئی جو میں نے ابھی پڑھی۔ یہی شیخ کاکام ہے دوستو!وہ سمجھتا ہے کہ اس آدمی کو کس راستے سے لے جانا ہے۔ سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکتا ہے۔ کسی کو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی راہ سے لے جاتا ہے کسی کو بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے راستے سے لے جاتا ہے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوءظن ایسے ہی ہے جیسے بچہ نادانی کی بنا پر اپنی ماں کی مامتا پر شک کرنے لگ جاتا ہے۔ اوراگر ہزاروں ماؤں کی مامتاؤں کو اکٹھا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی شفقت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر سوءظن نہ ہو تو