کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 216
اور اس کو یقین ہے کہ میں اسے دوں گا۔ کتنے انبیاء ہیں کہ سالہا سال ان کی دعا قبول نہ ہوئی۔ وہ قرب کی منزلیں محض دعا کی قبولیت روک کر تیزی سے طے کرواتا چلا جاتا ہے۔ جب آدمی کی آنکھ کھلتی ہے تو کہتا ہے تونے بڑا کرم کیا۔ اگر چند سال پہلے قبول ہوجاتی تو آج وہیں بیٹھا ہوتا۔ یہ منزلیں طے نہ کر سکتا۔ دوستو! یہ سوئے ظن ناپختگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی آدمی کوکوئی بیماری ہوتی ہے وہ دعا مانگتا ہے کہ یااللہ یہ بیماری دُور ہو جائے وہ دور نہیں ہوتی۔ پھر سوئے ظن پیدا ہوتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ آدمی مفلس ہوتا ہے۔ دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ میری مفلسی دور کر دے۔ دولت دے۔ دولت نہیں ملتی۔ پھر سوئے ظن پیدا ہوتا ہے۔
شرح السنہ میں علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث قدسی لکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
((إِنَّ مِنْ عِبَادِي مَنْ لا يصلحه إِلاَّ الْفَقْر وَلَوْ اغنيته لأَفْسَدَهُ ذَلِكَ ،))
میرے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کو افلاس ہی راس آتا ہے اور افلاس ہی سیدھا رکھتا ہے(جب تک فقر کی حالت میں رہے اسے میری طرف رجوع رہتا ہے۔ اس کی طبیعت ہی ایسی ہے) اگر میں اسے تونگر کر دیتا یہ اپنے مقام سے گر جاتا۔ (( وَإِنَّ مِنْ عِبَادِي مَنْ لا يُصْلِحُهُ إِلاَّ الْغِنَى))میرے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن پر میں نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہوں تو وہ میری طرف رجوع رکھتے ہیں۔ (( وَلَوْ أَفْقَرْتُهُ لأَفْسَدَهُ ذَلِكَ)) اگر میں انہیں قلاش کردوں تو وہ ملحد ہو جائیں اور زندیق ہو جائیں۔ مجھے گالیاں دینے لگیں۔ (( وَإِنَّ مِنْ عِبَادِي مَنْ لا يُصْلِحُهُ إِلاَّ الْسقم وَلَوْاصححته لأَفْسَدَهُ ذَلِكَ)) میرے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہیں بیماری ہی ٹھیک رکھتی ہے۔ اورمیری طرف رجوع رکھتے ہیں۔ اگر انہیں تندرست کردوں تو وہ