کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 215
دعا قبول نہیں ہوتی۔ ناقص العقل ہونے کی وجہ سے آدمی کہنے لگ جاتا ہے کہ عجیب محبت ہے تیری کہ میری بات ہی نہیں سن رہا۔ یہ بات بھی تشریح طلب ہے کہ محبت کن باتوں سے کم ہونے لگتی ہے اور کیا تدبیر کی جائے کہ وہ کم نہ ہو۔ دوستو! کبھی ایسا ہوتا ہے انسان دعا مانگتا ہے قبول نہیں ہوتی۔ وہ کہنے لگ جاتا ہے کیوں قبول نہیں ہوتی۔ بعض تو زبان سے شکوے شکایتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض کی زبان تو چپ ہوتی ہے مگردل بد گمان ہوجاتا ہے۔ اس کی جہالت ہے جیسے کوئی بچہ ہو اور وہ دہکتے ہوئے انگاروں کی طرف بار بار لپکے اور ماں کی مامتا بیچ میں حائل ہو وہی مامتا جو اس کی ہرنامعقول بات مانتی ہے اور باپ کے علی الرغم مانتی ہے وہ بیچ میں حائل ہو جاتی ہے اور انگاروں تک نہیں پہنچنے دیتی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان دہکتے ہوئے انگاروں کو موتی سمجھتا ہے اور مانگتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت اللہ کی شفقت بیچ میں حائل ہوتی ہے۔ انسان اندھا ہوتا ہے جیسے ماں کو ظالم سمجھتا ہے کہ انگارے اتنے خوبصورت ہیں وہ مجھے کیوں پکڑنے نہیں دیتی۔
دوستو!دعا کی عدم قبولیت کی حقیقت یہی ہے۔ اور اس نے کئی دفعہ اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس وقت آدمی سوچتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا کرم کیا مجھے اس مصیبت سے نجات دی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے دوستو! ایک درویش آدمی دعا مانگتا ہے۔ کئی برس گزر جاتے ہیں دعا قبول نہیں ہوتی اور حقیقت میں اس دعا کا قبول نہ ہونا اللہ کی اس آدمی پر اتنی بڑی رحمت ہوتی ہے کہ وہ تمام ولایت کے درجات ان سالوں میں ہی طے کرتا ہے اور صرف دعا کے قبول نہ ہونے کی وجہ سے طے کر جاتا ہے۔ جم کردعا روز مانگتا ہے۔ عبدیت اور بندگی کی مہریں اس کے وجود پر ثبت ہوتی چلی جاتی ہیں اور اللہ فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے اس بندے کو دیکھو کہ دعا قبول نہیں ہے مگر پھر بھی وہی حسن ہے وہی عاجزی ہے وہی نیاز ہے۔ پھر وہ مجھ ہی سے مانگتا ہے