کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 212
لیتا ہے۔ ((أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا)) آپ ایسے شخص کے ذمہ دار بنتے ہیں؟
اس ساری بات سے میں بتانا یہ چاہتا تھاکہ قرآن نے ((مِنْ دُونِ اللَّهِ)) کے لفظ استعمال کیے جن سے ہر بت کی نفی ہو گئی وہ پتھر کا ہو، نظریات کا ہو، خیالات کا ہو یا انسانوں کا بت ہو۔ اور کہا کسی کو بھی میری محبت میں شریک نہ ٹھہراؤ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے دوستو!آپ دیکھئے خاوند بیوی کی تمام لغزشوں کو معاف کر دیتا ہے مگر اپنی محبت میں غیر کو شریک نہیں دیکھ سکتا۔ یہ اتنا بڑا جرم قرارپایا۔ حالانکہ خاوند کوئی ایسا مُربی نہیں ہے جیسا مُربی حقیقی خدا ہے۔ جیسے وہ رب العالمین ربوبیت فرما رہے ہیں خاوند یوں ازلی اور ابدی طور پر ربوبیت نہیں کر رہا مگر اس کے باوجود اس کی غیرت کا یہ حال ہے اگر اس کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ میری محبت میں کسی غیر کو شریک ٹھہراتی ہے تو اس کی سب خدمتیں اکارت گئیں محض اس بنا پر کہ خاوند کی محبت میں غیر شریک کرتی ہے۔ یہی شرک کی حقیقت ہے۔ دوستو! وہ کہتا ہے میں تمھیں عدم سے وجود میں لایا ہوں۔ میں تمھیں پالتا ہوں۔ میں تمھاری ربوبیت کر رہا ہوں۔ اور جب سب کچھ میں دے رہا ہوں تو غیر سے ایسی محبت کیوں کر کر سکتے ہو جیسی مجھ سے ہونی چاہیے اس لیے فرماتے ہیں کہ میں سب کچھ معاف کردوں گا۔ مگر شرک معاف نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ((أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)) ساری کائنات کو میں نے تخلیق کیا ہے۔ اور کائنات میں حکومت بھی میری ہی چلے گی۔ ریاست میں ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے فرائض میں کوتاہیاں ہوتی ہیں جواب طلبی کے بعد بات ختم ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ پتہ چل جائے کہ اس آدمی کے پاس وائرلیس ہے دشمنوں کا حلیف ہے ان کے ساتھ سازباز کرتا ہے انہیں خبریں پہنچاتا ہے اس کو معاف نہیں کیا جاتا کہ ریاست سے بے وفائی کر رہا ہے یہی شرک کی حقیقت ہے۔ دوستو!