کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 209
اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ محبت ایک غیر مرئی چیز ہے ABSTRACTچیز ہے۔ نظر نہیں آتی اس کے جانچنے کی ایک ہی کسوٹی ہے کہ جب دو محبتوں میں تصادم ہوتا ہے۔ ٹکراؤ ہوتا ہے تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ آدمی اللہ کو چاہتا ہے یا غیر کو۔ اسی لیے قرآن نے کہا ((قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ)) ان تمام محبتوں کا ذکر جن سے اللہ کی محبت کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے ، کبھی باپ دادا کی رسموں سے ٹکراؤ ہو سکتا ہے، کبھی برادری کی رسموں سے ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ مثلاً برادری لڑکی کو ورثہ نہیں دیتی اور ادھر قرآن کہتا ہے ((لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ))کہ لڑکی کا حصہ 2/1اس کو دے دو۔ قرآن نے ٹھوس کسوٹیاں بنائیں۔ کوئی نظریا تی یا تخیلاتی باتیں نہیں ہیں۔
بیویوں کی محبت سے ٹکراؤ ہو سکتا ہے کہ بیوی کی خاطر ناجائز دولت تو نہیں کمارہا بیوی کے ناجائز تقاضوں کو پوراکرنے کی خاطر ناجائز دولت تو نہیں کما رہا جب محبتوں کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ آدمی اللہ کی خاطر غیر اللہ کو چھوڑتا ہے یا نہیں۔ یہی اللہ کی محبت کے شدید ہونے کی کسوٹی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حقوق بھی ادا کرتے تھے دنیا میں انقلاب برپا کر رہے تھے۔ شدید مصروفیت کے باوجود ہمیں بھی وقت دیتے تھے مگر جب اذان ہوتی تھی تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے حضرت ہمیں جانتے ہی نہیں ہیں ((كأنه لا يعرفنا))یہ بڑی واضح کسوٹی ہے جس سے کوئی دھوکہ نہیں لگ سکتا کہ محبتوں کے ٹکراؤ دیکھے کہ اللہ کے لیے فرعونوں نمرودوں اور مرشدوں کو چھوڑسکتا ہےوزیروں اور ریاست کے سر براہ کو چھوڑ سکتا ہے یا نہیں چھوڑ سکتا ہے، بڑی سخت کسوٹی ہے دوستو!