کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 207
ہیں۔ یہ ساری تذلیل ان چند سکوں کی خاطر برداشت کرتے ہیں جو کبھی ملتے ہیں اور کبھی نہیں ملتے۔ ہم یہاں یونیورسٹی میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ وائس چانسلر کی حاشیہ برداری اور کاسہ لیسی کر کرکے تک جاتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں، کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وائس چانسلر ہی مرجاتا ہے یا بدل جاتا ہے اور اس آدمی کو روسیاہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
دوستو! بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ جاہ اور چودھرایت کے بُت کی پُوجا کرتے ہیں۔ ان کو اللہ سے اتنی محبت نہیں ہوتی جتنی جاہ اور چودھرایت سے ہوتی ہے حتی کہ علماء میں یہ بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ تقریر اس لیے کرتے ہیں کہ اس علاقے میں میرا اثر ہو کہتے ہیں:۔ بڑا متاثر کیا ہے میں اس علاقے کو بعض علماء سے جب پوچھتا ہوں کہ تمھارا دورہ کیسا رہا ؟ کہتے ہیں مجھ سے علاقہ بڑا متاثر ہوا ہے۔ تمام علماء جن کے دل میں حب جاہ سرایت کر چکی ہے، اس بولی میں بات کرتے ہیں۔
اہل اللہ تو یہ کہتے ہیں:۔ اللہ کا وہاں بڑا کرم ہوا ہے۔ لوگ دین کی طرف مائل ہونے لگے ہیں۔ یہ حُب جاہ کی بیماری ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا بُت ہے دوستو!
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:۔
((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ))
’’اگر دو بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے گلے میں چھوڑدئیے جائیں تو وہ بھی ایسی تباہی اور بربادی نہیں مچاتے جس قدر مال کی محبت اور جاہ کی محبت ایک انسان کےدین کو تباہ کرتی ہے۔‘‘ یعنی آدمی کی ساری سوچ ہی یہ ہو کہ پیسے زیادہ کہاں سے ملے گے۔ زندگی کا کوئی مقصد ہی نہ ہو، کوئی اپنی اقدار نہ ہوں جن کی خاطر جی سکے، کوئی اخلاقی اور روحانی مشن پیش نظر نہ ہو۔ آپ کا خیال ہے کہ جو لوگ مشن کی خاطر جیتے ہیں، ان کی ضرورت پوری نہیں ہوتیں، خدا کی قسم دولت ان کے دروازوں پر دھکے کھاتی ہے۔ وہ کبھی اسے قبول کرتے ہیں اور کبھی ٹھکرا