کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 206
((إنْ أُعْطِيَ رَضِيَ،))وہ ہر بات کو پیسوں کی TERMS میں سوچتا ہے۔ اگر پیسے مل جائیں تو بہت خوش ہوتا ہے ((وإنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ،)) اگر نہ ملیں تو ناراض ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں۔ ستیاناس ہوا ایسے بندے کا، وہ تو عبدالدرہم ہے،عبداللہ نہیں ہے، میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دانستہ طور پر لفظ عبداستعمال فرمایا۔ ورنہ اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور طریقوں سے بھی فرماسکتے تھے۔ چونکہ اس کا تعلق توحید تھا، اس لیے اسے عبدالدرہم فرمایا ، عبدالدینار کہا۔ دوستو! اس دور میں لوگوں کو میں نے دیکھا کہ دولت کے پیچھے پاگلوں کی طرح پھر رہے ہیں اور بِندیوں کے چکر میں بوڑھے ہو جاتے ہیں مگر باز نہیں آتے اور اسی چکر میں مر جاتے ہیں۔ میں اپنے ڈاکٹر دوستوں سے پوچھا کرتا ہوں کہ جب کسی مریض کی زندگی سے مایوس ہو کر اس کے رشتہ داروں کو آپ جواب دے دیتے ہیں اور وہ آدمی سمجھ جاتا ہے کہ آپ نے اس کے گھروالوں سے کیا گفتگو کی ہے، اس وقت اس شخص کے منہ سے کیا الفاظ نکلتے ہیںِ تو میرے ڈاکٹر دوست کہتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے سر پر دولت سوار ہے، اس وقت ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلتی ہیں:۔ ”وہ میں نے فیکٹری بنائی تھی، اس کا کیا ہوگا؟“یہ درہم و دینار کی بندگی کی علامت ہے، اسے یہ خیال نہیں کہ آگے اس کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ وہ نتائج جو قیامت تک اور قیامت کے بعد ابدالآبادتک اسے بھگتنے پڑیں گے، ان کی کوئی فکر اسے لاحق نہیں ہوتی۔ شیطان نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہے((يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ))اس وقت بھی یہی سوچ رہا ہے کہ میں نے جو فیکٹری ابھی ابھی لگائی ہے اس کا کیا بنے گا؟ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دولت کی ایسی پرستش کرتے ہیں کہ لات و عُزیٰ کے پجاریوں کو بھی بات کردیتے ہیں۔ اس قدر اس کے لیے ذلتیں برداشت کرتے ہیں دنیا کے ہر ایرے غیرے اور ٹکے ٹکے کے آدمیوں کا سہ لیسیاں کرتے ہیں حاشیہ برداریاں کرتے ہیں، ان کی مصیبتیں اُٹھاتے