کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 201
ممکن ہوتا تو میں یہ چاہتا کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ ہوں، پھر قتل کیا جاؤں یعنی اس کی راہ میں جان دینے میں ایسی لذت ہے اور یہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس سے بار باربہرہ یاب ہونے کو جی چاہتا ہے۔ مقام شہادت کی جاذبیت کا یہ عالم کہ وہ صحابہ جو اس جہان آب و گل میں ہیں وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اس کے حصول کی دعائیں مانگیں ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ)) اور جو شہادت کا رتبہ پا چکے وہ سب سے بڑی مراد جو اللہ سے مانگتے ہیں یہی ہے کہ ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیج کہ تیری راہ میں فنا ہونے کی لذت پھر ایک بار حاصل کریں۔ پس وہ قوم جس کا ہر فرد ملت کی آبرو کے لیے اپنی جان دینے کو سب سے بڑی سعادت سمجھے وہ کبھی پسپا نہیں ہو سکتی اور اس دشمن سے کبھی ہزیمت نہیں کھا سکتی جو شہادت کی جادواں زندگی کے تصور ہی سے یکسر عاری ہے۔ اللہ کی اان گنت رحمتیں ہوں ان شہیدان ملت پر جنہوں نے پاکستان کی سر حدوں کو اپنے خون سے سینچا اور مقدس وطن کی سر زمین میں اپنی ہڈیوں اور اپنے لہو کی کھاد ڈالی اور اس سر زمین کو استحکام بخشا۔ قوم ان کی زمین منت ہے۔ انھوں نے خود فنا ہو کر قوم کی رگوں میں زندگی اور حرارت ایمانی کی لہر دوڑادی۔ یہ انہی کی بدولت ہے کہ آج قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے۔ یہ اپنا مال اپنا قلم اپنی زبان اپنی توانائی اپنی جان ، دین و ملت کے لیے وقف کرنے کا جذبہ انہیں شہیدان وطن نے ہمیں بخشا ہے۔ ہمارے شعراء ادب پر ایک مدت سے افسردگی اور مردنی چھائی ہوئی تھی۔ ہمارا ادب ژولیدگی اورآوارگی کے مرض میں مبتلا تھا۔ اس پر ایسا جمود طاری تھا کہ ہمیں احساس ہونے لگا تھا کہ ہمارا ادب بانجھ ہو گیا ہے۔ اس جمود کی برف کو ان شہیدان ملت نے اپنے گرم لہو سے توڑا۔ ادب کے تخلیقی عمل پر مہمیز لگائی اور اسے واضح اور متعین مقصدیت بخشی۔ یہ انہی کا صدقہ