کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 200
کی خاطر دشمن کی گھات میں بیٹھے ہوئے دنیا سے گیا تو اس کا عمل قیامت تک برابر نشو و نما پاتا رہتا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمل جہاد بھی حسنات جاریہ میں سے ہے اور اس کی علت بالکل واضح ہے عمل جہاد کی بنیاد ہی یہ ہے کہ بعد کے زمانے اور آنے والی نسلوں کی حفاظت وسعادت کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا جائے حتی کہ اپنا وجود بھی قربان کردیا جائے کوئی عمل نہیں جو اس سے زیادہ سچی اور بے لوث انسانی خدمت کے جذبات رکھتا ہو، عمل شہادت کے نتائج چونکہ بعد میں مسلسل اورپہیم مرتب ہوتے رہتے ہیں،ناگزیر ہوا کہ اس کا اجر بھی مسلسل اور پہیم ہو۔ شہید کی شان سب سے نرالی ہے۔ بڑے سے بڑے ولی کے بارے میں حکم ہوا کہ ((اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ))اسے پانی اور بیری کے پتوں سے نہلاؤ اور دو چادروں کا کفن اس پر ڈالو، مگر شہید ان حق کے لاشے غسل سے بے نیاز ہوئے پانی اس قابل نہ رہا کہ ان مقدس زخموں کو دھو سکے۔ وہ اس کی راہ میں کھائے ہوئےزخم ۔ ۔ ۔ وہ ان زخموں سےبہتا ہوا خون ۔ ۔ ۔ وہ خاک و خون میں لتھڑا ہوا لباس خدا کو اتنا محبوب ہوا کہ حکم ہوا شہید کو اسی ہئیت میں دفن کرو۔ وہ آب غسل سے بے نیاز وہ کفن کی چادوں سے بے نیاز وہ میری اور تمھاری نماز جنازہ سے بے نیاز ۔ ۔ ۔ وہ خون عشق کے سرخ دھبے خدا کے ہاں اتنے مقبول ہوئے کہ اسی ہئیت میں دفن ہوا روز محشر اسی عاشقانہ ہئیت میں اٹھے گا۔ ((كهيته يوم كُلِم)) وہی ہئیت کو زخموں سے خون بہ رہا ہوگا۔ چو میرو مبتلا میرد۔ چو خیزدمبتلا خیز د مقام شہادت کی دلربائیوں کا اندازہ اس سے کیجئے کہ خود سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں۔ ((والَّذي نَفسِي بيدِه ، لوَدِدتُ أنِّي أُقتَلُ في سبيلِ اللهِ ثمَّ أُحيَا ، ثمَّ أُقتَلُ ثمَّ أُحيَا ، ثمَّ أُقتَلُ)) (میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر