کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 20
تمام افراد امیر پر اس طرح جانیں نہ چھڑکیں جس طرح پتنگے شمع دان پر گرتے ہیں اسلام کے جماعتی نظام کی ابجد ہوز بھی سیدھی نہیں ہوتی۔ یہ دلوں میں ایک دُوسرے کے خلاف حسد اور بغض کا ہوتا۔ یہ اڑنگا پٹخنی،یہ دھول دھبا اور دھینگا مشتی۔ کیا یہ دینی زندگی ہے؟ بزرگوں کی تصنیفات دوستو!ہمارے بزرگوں کی تصنیفات کو دیمک چاٹ رہا ہے۔ ہم میں کوئی نہیں جو ان بزرگوں کے حالات زندگی کو ضبط تحریر میں لائے۔ عظیم شخصیتیں تمہارے ہاں گزری ہیں۔ لوگوں نے اپنے بزرگوں کے خادموں کے حالاتِ زندگی بھی لکھ ڈالے۔ تم کو کیا ہوا کہ جن لوگوں ساٹھ ساٹھ برس تک تمہاری بے لوث خدمت کی ان پر قلم اُٹھانے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں ہے۔ تمہیں الیکشن جیتنے اور ہارنے کا ایسا لپکا پڑ گیاہے کہ اور کسی بات کا تمہیں ہوش باقی نہیں رہا۔ تمہاری درسگاہیں بنجر ہوگئیں۔ بانجھ ہوگئیں۔ ان درسگاہوں سے اب کوئی مولانا ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ پیدا نہیں ہوتے۔ کوئی مولانا ابراہیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ پیدا نہیں ہوتے۔ کوئی داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ پیدا نہیں ہوتے۔ نہ اہل قلم پیدا ہوتے ہیں،نہ مبلغ پیدا ہوتے ہیں،نہ مقرر پیدا ہوتے ہیں،نہ محقق پیدا ہوتے ہیں اور یہ باتیں تھیں غور کی دوستو۔ تُم دن رات اُکھاڑ پچھاڑ میں لگے رہتے ہو۔ یہ کیا زندگی ہے جو تم نے اختیار کررکھی ہے ۔ آہ!کس قدر درد ہے میرے سینے میں جس کا اظہار کررہا ہوں اور اس تلخ نوائی کے لیے آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ مرکزیت نہ ہوتو خلفشار ہے،انتشار ہے۔