کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 199
جان دے ڈالتےہیں اور اللہ کی خاطر مر مٹتے ہیں، سب سے پہلا انعام اللہ نے ان پر یہ کیا، کہ انہیں دائمی زندگی بخشی۔ ((وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ)) (جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہیں مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے) اس آیت میں صرف یہی نہیں کہ شہدا زندہ ہیں بلکہ یہ کہا کہ جب تم کسی شہدا کے بارے میں یہ کہتے ہو کہ مر گیا ہے، تو تمھارایہ کہنا مجھے ناگوار ہوتا ہے۔ پھر سورہ آل عمران میں کہا: ((وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ)) (یعنی صرف یہی نہیں کہ تم زبانوں سے انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ یہ خیال بھی تمھارے ذہن سے نہ گزرے کہ وہ مر گئے ہیں انہیں دائمی اور ابدی زندگی حاصل ہوئی۔ ایک عارف نےاسی آیت کی روشنی میں کہا تھا۔) مردہ ہر گز نشوو آنکہ میرددر عشق کشتہ ناز ترا زنن دائم شمریم دوسری نوازش ان پر یہ ہوئی کہ ((عِندَ رَبِّهِمْ))انہیں اللہ کا قرب حاصل ہوا اور وہ جو قرب الٰہی کے لذت شناس ہیں سمجھتے ہیں کہ اس نوازش کے سامنے سب نوازشیں ہیچ ہیں تیسری نوازش ان پر یہ ہوئی کہ انوار الٰہی کا انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ اور اللہ کی رحمتیں ان پر پہیم برستی ہیں۔ چوتھی نوازش ان پر یہ کی گئی کہ ان کے درجات مسلسل بلند ہوتے رہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے۔ ((كل ميت يختم على عمله إلا الذي مات مرابطا في سبيل الله فإنه ينمى له عمله إلى يوم القيامة.)) (ارواه اصحاب السنن) ہر مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ ہاں مگر جو شخص اللہ