کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 196
اکبر الکبائر قراردیتا ہے۔ لیکن اس جُرم سے بھی زیادہ سنگین جرم یہ ہے کہ لوگ اپنی حکومت اور آبادیوں پر قانع نہ رہیں۔ اللہ سرزمین پر فتنہ وفساد پھیلائیں۔ دوسروں کی آزادی اور حکومت پر غاصبانہ ہاتھ ڈالیں۔ قرآن نے چند لفظوں میں یہ بات سمیٹ دی ہے۔
((وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ)) ”فتنہ فساد قتل سے بھی شدید گناہ ہے“
وہ قومیں جو طاقت کے نشہ اور گھمنڈ میں اللہ کی سرزمین پر بغاوت اور سرکشی کرتی ہیں اور دوسری قوموں کا حق خود ارادیت پامال کرتی ہیں۔ جب تک ان قوموں کو سرکچل نہ دیا جائے۔ فتنہ وفساد رک نہیں سکتا ہے اوردنیا میں عالمگیر صلح وامن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ پس فتنہ وفساد کے عظیم شرکو ختم کرنے کے لیے اور صلح وآشتی کی فضا پیدا کرنے کے لیے اسلام ناگزیر سمجھتا ہے کہ مفسد اور جابر قوتوں کو فنا کردیا جائے۔ سورہ محمد ؐ میں قرآن نے جواز جنگ کی علت بتلادی۔
((حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ)) (6:47)
”لڑتے رہو یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ یعنی جنگ بالکل موقوف ہوجائے“
مستقل امن اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ ظالم اور مفسد حکومت کو یوں مسل دیا جائے اور اس قوت کا زور یوں توڑا جائے کہ اس میں فساد پھیلانے کی سکت باقی نہ رہے۔ اسی حقیقت کو قرآن نے یوں بیان کیا :
((حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ ۚ)) (5:40)
”یہاں تک لڑ و کہ دشمن چور چور ہوجائیں“
تمہا را دشمن عیّار ہے۔ اس کی شاطرانہ چالوں کی گھات میں رہو۔ پل بھر کی غفلت سے بھی پانسہ پلٹ سکتا ہے اور یہ مت سمجھو کہ جنگ ختم ہوگئی ہے۔