کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 194
1۔ بھارت کے اس حملے سے قوم جاگ اُٹھی ہے ۔ قوم کی رگوں میں زندگی اور حرارت ایمانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ سیاسی دھڑے جو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے تھے اور ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالتے تھے۔ اللہ نے انہیں توفیق دی کہ وہ متحد اور یک جان ہوجائیں۔ علماء ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے تھے اور قوم کو فروعی اور اختلافی مسائل میں اُلجھا کر ملّت کی وحدت پارہ پارہ کررہے تھے ۔ ہم نے کیا کیا کہ جتن نہ کیے کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوسکیں مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ ہم بھارت کے شکر گزار ہیں۔ کہ اس کے حملے سے قوم ایک سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ متحد اور یک جان ہوگئی۔
2۔ قوم میں جہاد کا جذبہ زندہ ہوگیا ہے۔ یہ اپنا مال ،اپنی جان،اپنا علم،اپنی زبان،اپنا قلم ،اپنی توانائی،دین وملت کے لیے وقف کرنے کا جذبہ ایک متاع بے بہا ہے۔
3۔ ہمارے شعر وادب پر ایک مدت سے ،افسردگی، اورروگردانی چھائی ہوئی تھی۔ ہمارا ادب واضح اورمتعین مقصد سامنے نہ ہونے کی وجہ سے ژولیدگی اور آلودگی کے مرض میں مبتلا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا ادب بانجھ ہوگیا ہے۔ بھارت کے حملے نے ہمارے شاعروں اور ادیبوں کے تخلیقی عمل پرمہمیز لگائی ہے۔
شاعر کی نواؤں سے خون ٹپک رہا ہے۔
ادیب کا قلم غزال رعنا کی طرح چوکڑیاں ہورہا ہے۔
مقرر کی زبان آگ برسارہی ہے
واعظ کا بیان تعمیر کے سانچوں میں ڈھل رہا ہے۔
آپ یقین کیجئے کہ وہ ارتقائی منازل جو قومیں سالہا سال کی مسلسل تگ ودو سے طے کرتی ہیں۔ ۔ ۔ ہم نے چند دنوں میں ان ارتقائی منازل کو طے کرلیا ہے۔ ؎
طے می شود ایں رہ بہ درخشیدن برقے
ما بے خبراں منتظر شمع وچراغیم