کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 185
مگر تم پر ایسی بے حسی چھاگئی تھی، تمھاری غیرت اسلامی مردنی طاری ہوگئی تھی کہ تمھاری تجوریوں سے بخل کے تالے نہ ٹوٹے خدا تم سے کہے گا ۔ تم نے ساحل پر کھڑے ہو کر ملت کی تباہی کا تماشا دیکھا۔ اگر بد قسمتی سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تو تم یوں سمجھو کہ اس حیات و موت کی کی کشمکش میں اگر تم نے مال بے دریغ صرف نہ کیا تو نہ تم رہو گئے۔ نہ تمھاری تجوریاں رہیں گی۔ اور نہ مال و دولت کے یہ انبار رہیں گے۔ اگر قلب پر ایسا دبیز حجاب ہے کہ اللہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی ، تو خود اپنے وجود کی خاطر اپنے اس مال و دولت کی حفاظت کے لیے۔ ۔ ۔ جو تمھیں ملک و ملت سے عزیز تر ہے اپنا مال کھپا دو۔ یہ بات تو میں نے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں سے کہی۔ ایک بات غیر در متوسط طبقے کے ساتھیوں سے بھی کہتا ہوں۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے جی میں یہ وسوسہ پیدا ہوتاہے کہ ہر روز لاکھوں کی رقم قومی دفاعی فنڈ میں دی جارہی ہے اخبارات میں روز ان رقوم کا اعلان ہوتا ہے میرے چند ٹکوں سے کیا ہوتا ہے: جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا جہاد عین فرض ہو چکا ہے، اپنے جی کو اس وقت سمجھاؤ کہ اگر اوروں نے لاکھوں کی رقم دی ہے تو اس سے وہ فریضہ جو مجھ پر عائد ہوتا ہے، ساقط تو نہیں ہو جاتا ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ تم کہنے لگو کہ لاکھوں مسلمان نمازیں پڑھ رہے ہیں ایک میں نے اگر نماز نہ پڑھی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یاد رکھیے کہ حق اپنی نصرت و حمایت کے لیے محتاج نہیں ہے۔ تم اپنی بقا کے لیے حق کے محتاج ہو، حق کی نصرت و حمایت کا سامان تو بہر کیف اور بہر حال ہوگا۔ اگر اللہ کو وابستگان محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت منظور ہوئی تو تمھاری روگردانی سے کیا ہوتا ہے