کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 184
اپنی جانیں ہتھیلیوں پہ رکھ کر دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں،ان کا مقام بہت ہی اونچا ہے۔ ((وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا))لیکن یادر رکھیے کہ جنگ محض جہاد بدنی سے جاری نہیں رہ سکتی ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ اگر ہم ان سر فروش مجاہدوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم نہ کر سکیں تو ہم جنگ کیسے جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ آلات جنگ یہ جنگی سازو سامان یہ پچاس میل لمبے محاذ پر ہزاروں مجاہدوں کے مصارف کروڑوں کی۔ رقم ہر روز صرف ہوتی ہے۔ پس آج ((وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ)) پر عمل کرنے کے لیے اربہاکھر بہا روپوں کی ضرورت ہے۔
ایک وہ لوگ ہیں جو آج ملک وملت کی خاطر میدان جنگ میں سختیاں اور مشقتیں جھیل رہے ہیں اور وہ جن کے لاشے خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں۔ حیف ہے ہم پر اگر ہم ان مجاہدوں کے لیے ضروریات زندگی بھی فراہم نہ کر سکیں۔ حیف ہے ہم پر اگر اس وقت بھی جب کہ قوم حیات و موت کی کش مکش میں مبتلا ہے۔ ہماری تجوریوں کے قفل نہ ٹوٹیں۔ حیف ہے ہم پر کہ عین اس وقت جب کہ ہماری مقدس سر زمین پر دشمن یلغار کر رہا ہے ہم بے چارہ و ناتواں لوگ جن سے اور کچھ بن نہیں پرتا ہے چند سکوں کی قربانی سے بھی دریغ کریں۔
بالخصوص ہمارے تاجروں ،صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو نہایت فیاضی کے ساتھ اپنا مال کھپا دینا چاہیے۔
یاد رکھیے اگر اس فریضہ میں کوتاہی کی گئی تو قیامت کے دن خدا یہ پوچھے گا۔ کہ تمھارے پاس مال و دولت کے انبار لگے ہوئے تھے تمھاری تجوریاں بھری ہوئی تھیں، اسلام کی عزت و ناموس پر خطرہ منڈلا رہا تھا مسلمان قوم حیات و موت کی کش مکش میں مبتلا تھی،