کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 182
کے ہر شخص پر فرداً فرداً جہاد واجب ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے نماز روزہ فرداً فرداً واجب ہے اور ایک گروہ کے نماز پڑھ لینے سے باقی مسلمانوں کے ذمے نماز ساقط نہیں ہو جاتی۔ پس آج جہاد فرض عین ہو گیا ہے، اور وقت وہ آگیا ہے کہ صاحب ہدایہ کے لفظوں میں یوں کہیے کہ: (( تخرج المرأة بغير اذن زوجها والعبد بغير اذن الموليٰ)) ”عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہو جائے اور غلام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آقا کی اجازت کے بغیر جہاد میں حصہ لے۔ “ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر علماء کی آراء باہم ٹکرانہ گئی ہوں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس پرمختلف جماعتوں اور گروہوں کے علماء باہم دست و گریباں نہ ہوئے ہوں لیکن یہ مسئلہ کہ اس وقت جہاد ہر پاکستانی پر فرض عین ہو گیا ہے، ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر تمام علماء ، تمام فقہاء تمام مشائخ کا اتفاق ہوا۔ سب نے بیک زبان کہا کہ جہاد فرض عین ہو گیا ہے۔ جہاد کا شرعی مفہوم کیا ہے؟ یہ سمجھنا فاش غلطی ہے کہ جہاد کا مفہوم محض قتال یا لڑائی ہے۔ قرآن نے یہ لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ جہاد کا لغوی معنی کوشش کرنا ہے اور شرعی اعتبار سے ہر وہ کوشش جو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کی جگہ حق و صداقت کی راہ میں کی جائے۔ جہاد سے تعبیر کی جاتی ہے۔ ((وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ)) (جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم یقیناً انہیں اپنی راہیں سمجھا دیتے ہیں) شریعت کی بولی میں ہر وہ مصیبت اور تکلیف جو حق و صداقت کے لیے برداشت کی جائے جہاد ہے۔ سورہ فرقان میں ہے۔ (( فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا)) (یعنی کافروں کے خلاف