کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 162
”آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ا ن سے کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ تپش والی ہے،اے کاش کہ وہ سمجھ بوجھ رکھتے“ سفردوردراز کا تھا۔ بے سروسامانی حد سے گزری ہوئی تھی۔ حجاز میں فصل پک چکی تھی اور کٹائی کا وقت آگیا تھا اور ٹکر اس سلطنت سے تھی جو آدھی دنیا پر چھائی ہوئی تھی،لیکن کوئی عذر قبول نہ ہوا۔ اگر مشکلات اورمجبوریوں کے عذر سنے جاسکتے تو ان حالات سے بڑھ کر کون سے حالات عذرداری کے لیے مناسب ہوسکتے تھے،مگر دفاع کا فرض ایسا سخت اور اٹل تھا کہ کوئی عذر مسموع نہ ہوا۔ حکم ہوا کہ تمام سختیاں جھیل لو،مگر دشمن کو روکنے کے لیے بہرصورت،بہرکیف کھڑے ہوجاؤ۔ پھر دیکھئے!وہ تین مسلمان جو جہاد میں شریک نہ ہوسکے پکے مومن تھے،وہ ہرمعرکے میں شریک ہوتے رہے۔ وہ زندگی بھر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر قربانیاں دیتے رہے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ((وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ))میں سے تھے اور ان تہتر جانثارو ں میں سے تھے جو عقبہ کی بیعت میں شریک ہوئے اور اس د فعہ جہاد میں شریک ہونے سے اگررہ گئے،تو کسی فسادِ نیّت کی بنا پر نہیں،بلکہ محض بتقاضائے بشریت مستعدی سے کام نہ لیا۔ تاہم دیکھو!فریضہ دفاع میں کوتاہی اللہ کی نظر میں ایسا سنگین جرم قرار پایا کہ زندگی بھر کی نیکیاں کام نہ آسکیں۔ اعترافِ جُرم اور خجالت کے باوجود سخت سے سخت سزا جو دی جاسکتی تھی،دی گئی،اسلامی برادری سے نکال دیے گئے۔ پچاس دن مسلسل اور پہیم گریہ وزاری کرتے رہے،تب کہیں جا کر توبہ قبول ہوئی۔ بارگارہِ الٰہی میں توبہ کی قبولیّت کا جوحال ہے ،آپ کو معلوم ہے۔ ۔ ۔ بارگارہِ جہاں سے پیہم یہ صدا آتی ہے۔ ؎ باز آ باز آ ہرآں چہ مستی بازآ گر کافرو گبروبت پرستی باز آ ایں درگہہ مادرگہہ نومیدی نیست صدبار اگرتوبہ شکستی بازآ وہ بارگاہ جس کا یہ عالم ہے: ((لَوْ أَخْطَأتُمْ حتى تَمْـلأ خَطَاياكُمْ ما بَيْـن السَّماءِ والأرضِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرْتُم