کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 161
چلے آؤ۔ ہم تیری چارہ سازی کریں گے۔ ہم تیری غمگساری کریں گے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے قاصد کی موجودگی میں خط پڑھتے ہی آگ میں جھونک دیا۔ اس اندھے کو کیا خبر تھی کہ وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب تھے۔ ان کی نظر میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی جفائیں بھی غیروں کی وفاؤں سے ہزار درجہ افضل تھیں۔ اے جفاہائے تو خوش تر زوفائے دیگراں ان مومنین صادقین پر یہ آزمائش پورے پچاس دن رہی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اورسورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ((وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ)) ”اور وہ تین آدمی جن کا معاملہ فیصلہ الٰہی کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ سو جب تمام مسلمانوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا،تو زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی۔ وہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوگئے اور وہ سمجھ گئے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں،جو اس سے انہیں پناہ دے،پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ یقیناً اللہ ہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا اور خطا کاروں پر مہربان ہے۔ “ اس واقعہ سے فریضۂ دفاع کی اہمیت وقطعیت اُبھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ جب رومیوں نے حملے کی تیاریاں کیں،تو ہر مسلمان پر جہاد شرعاً واجب ہوگیا۔ اگرچہ گرمی شدت کی پڑ رہی تھی اور منافق کہتے تھے۔ ((لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ)) اس شدت کی گرمی میں تو جہاد کے لیے نہ نکلو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ((قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ))