کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 160
میں لگے رہے،پھر ان کی بیویوں کو حکم ملا کہ وہ بھی ان سے الگ ہوجائیں اور ان سے کوئی واسطہ نہ رکھیں۔
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حکم کے ملتے ہی صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ہم سے منہ پھیر لیا۔ کوئی ہم سے بات تک کرنے کا روادار نہ تھا۔ ہم ایک ایک کا منہ حسرت سے تکتے تھے۔ اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ہم پر تنگ ہوگئی۔ میرے دونوں ساتھی گھر بیٹھ گئے۔ اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے رہے۔ میں اپنی قوم میں سخت جان تھا۔ میں جماعت کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا۔ نماز کے بعد میں بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں سلام عرض اوردیکھتا رہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں کوحرکت ہوئی یا نہ ہوئی،پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی کہیں نماز کے لیے کھڑ ا ہوجاتا اورکنکھیوں سے انہیں دیکھتا۔ ہا!مولانا جامی کا شعر یا دآگیا۔
خوش آنکہ تو نشینی ومن پیش روئے تو
سازم بہانہ بہر نگا ہے نمازرا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی تدبیر اس سے بہتر کیا ہوسکتی ہے کہ آپ تشریف فرما ہوں اور آپ کے چہرۂ انور کے آس پاس کہیں آپ کے مکھڑے پر ایک بھر پور نظر ڈالنے کی خاطر میں کئی کئی رکعتیں پڑھوں۔
فرماتے ہیں۔ ۔ ۔ میں جو ان کی طرف منہ موڑتا ،تو وہ مجھ سے رُخ پھیرلیتے۔ زندگی!اجیرن ہوگئی۔ میں تنگ آکر اپنے چچازاد بھائی ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔
((والله ما ردّ علي السّلام)) ”خدا کی قسم اس نے مجھے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ “
میں نے بہتیرا چاہا کہ وہ مجھ سے بات کرے مگراس نے ایسی چُپ سادھ لی کہ مُجھ سے کوئی بات نہ کی۔
غّسان کے عیسائی بادشاہ نے یہ حال سنا،تو خوش ہواکہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کا خوب موقع ہاتھ آیا۔ کعب رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا:
((فَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ))
ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تیرا آقا تم پر سخت ظلم ڈھارہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے پاس