کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 16
کہا،فورا! دہلی جاؤ اور معلوم کرکے آؤ کہ کیا سچ مُچ میرے شیخ دُنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا ذاتی گھوڑا دیا۔ حضرت شاہ صاحب تمام راستہ گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے پیدل چلتے رہے،لیکن گھوڑے کی اس زین پر بیٹھنے کی ہمت نہ ہوئی جس پر ان کے شیخ بیٹھتے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ حضر ت شاہ صاحب کس قدر باادب آدمی تھے کہ اس زین پر بیٹھنا بھی سوئے ادب سمجھا جس پر ان کے شیخ بیٹھتے تھے۔ ”ارواح ثلاثہ“ ہی میں لکھا ہے کہ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ تقریر نہ کرتے تھے،خاموش بیٹھے رہتے کہ میرے شیخ بیٹھے ہیں،ان کی موجودگی میں کیا کہوں۔ بعض لوگوں نے حضرت شاہ صاحب کی کتاب”تقویۃ الایمان“ ہی پڑھی ہے،کبھی صراط مستقیم بھی دیکھو،کبھی عبقات بھی پڑھو۔ وہ تو بہت لطیف آدمی تھے۔ وہ تجلیات سے آگاہ،وہ انوار سے آگاہ،سلوک کے مقامات سے آگاہ ،خدا کی محبت اور معرفت کے تمام رموز سے واقف ،ان کی شخصیت میں توحید وادب یکجا ہوگئے تھے۔ توحید وادب کا یکجا ہونا تکمیل کی علامت ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے متکوبات دیکھ رہا تھا۔ خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادوں کو خط لکھتے ہیں: ”ایں فقیر از سرتاپاغرق احسان بائے والد شمااست“ یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک خط میں خواجہ باقی باللہ کے صاحبزادوں کو لکھتے ہیں۔ ”اگرمُدت العمرسر خود راپائمال اقدام خدمہ عتبہ علیہ شما کردہ باشم ہیچ نکردہ باشم۔ “