کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 159
شریعت میں حکم ظواہر پر ہوتا ہے،وہ ظاہری گرفت سے چھوٹ گئے ۔ آپ ان کے عذر قبول کررہے تھے اور فرماتے تھے کہ خدا تمہیں بخشے۔ اللہ تمہارے دلوں کے حال سے آگاہ ہے۔ حتیٰ کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ ((تبسَّم تَبسُّمَ المُغْضَب))آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غضب آمیز تبسّم فرمایا۔ میں نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات جب مزاج ِ دوست کچھ برہم نظر آیا مجھے غیر حاضری کی وجہ دریافت کی۔ کعب رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“میرے پاس غیر حاضری کا کوئی عذر نہیں۔ میں مجرم ہوں۔ اب آپ جو فیصلہ چاہیں میرے حق میں دیں۔ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَمَّا ہٰذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیکَ)) ”البتہ یہ شخص سچی بات کہہ رہاہے۔ اچھا جاؤ اور وحی الٰہی کا انتظار کرو۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ((أَمَّا ہٰذَا)) میں بہت کچھ کہہ دیا اور سب کچھ بین السطور کیا۔ فریضۂ دفاع میں کوتاہی سنگین جرم ہے آپ نے دیکھا کہ فریضۂ دفاع میں کوتاہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اتنا بڑا جرم قرارپایا کہ اعتراف جرم بھی کیا اور ندامت بھی ہوئی، لیکن مغفرت نہ ہوسکی،مسلمانوں کوحکم دیا گیا کہ ان تینوں کا سوشل بائیکاٹ کرو۔ ان سے تمام تعلقات منقطع کردو۔ کوئی ان سے بات چیت نہ کرے۔ نہ کوئی ان کے سلام کا جواب دے۔ یہ تینوں مُجرم ہیں اور ان کا جرم بڑا ہی سنگین ہے کہ عین اس وقت جبکہ مسلمان اسلام کی عزت وناموس کےدفاع کے لیے صعوبتیں جھیل رہے تھے،یہ دُنیا کے دھندے