کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 158
اما م بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لمبی روایت خود حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی نقل کی ہے اور اس واقعہ کے لیے خاص باب باندھا ہے۔ اس روایت کے بعض حصے اختصار کے سات عرض کرتا ہوں۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”لوگ جہاد کے لیے سامان ِ سفر تیار کررہے تھے ،مگر مجھے کچھ تشویش نہ تھی۔ اللہ کے فضل سے ہرطرح کا سامان مجھے میّسر تھا۔ ایک چھوڑ دوسواریاں میرے پا س تھیں۔ خیال تھا کہ میں آجکل میں لشکر سے جاملوں گا۔ اسی ادھیڑ بن میں وقت نکل گیا۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کرفرمایا:
((ما فَعَلَ كعْبُ بْنُ مَالكٍ؟)) ”کعب بن مالک کو کیا ہوا؟“
بنی سلمہ کے ایک آدمی نے کہا:
”اس کی عیش پسندی نے اُسے نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ “
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پاس کھڑے تھے ،کہنے لگے:
((بِئس مَا قُلْتَ، وَاللَّهِ يا رَسُولَ اللهِ مَا عَلِمْنَا علَيْهِ إِلاَّ خَيْراً))
”تُو نے کتنی بُری بات کہی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خدا کی قسم ہم نے تو کعب رضی اللہ عنہ می بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ “ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ شہر خالی ہوچکا تھا۔ میں گھر سے باہر نکلتا تو پکّے منافقوں اور چند اپاہج اور معذور مسلمانوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتاتھا۔ میں سخت شرمندہ ہوا اور ابھی سفر کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی پریشانی اوربارگاہ ِ رسالت میں حاضری
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سخت پریشا ن ہوئے کہ میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ منافقین جھوٹے حیلے بہانے تراش رہے ہیں اور چونکہ