کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 157
ذرا غورکیجئے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت کا کون سا مقام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے فیض سے وہ عشق الٰہی کے نشے میں کیسے سرشار تھے کہ وہ اپنا سر اللہ کی راہ میں کٹوانے کے لیے بیتاب تھے۔ جب اس کا موقع نہ ملا تو وہ رورو کر نڈھال ہوگئے۔ وہ روتے اس لیے تھے کہ جب اسلام کی عزت وناموس کی خاطر مسلمان سختیاں جھیل رہے ہوں گے،اور مسلمانوں کے لاشے خاک وخون میں تڑ پ رہے ہوں گے ،ہم بدبخت ونامراد اپنے گھروں کی چھتوں کے نیچے آرام وراحت کی نیند سورہے ہوں گے۔ انتہائی بے سروسامانی گرمی کی شدت پڑ رہی تھی،مسافت لمبی تھی ۔ فصل پک چکی تھی اور کٹائی کا وقت آگیا تھا بے سروسامانی کا یہ عالم کہ دودوصحابیوں رضی اللہ عنہم کے حصّے میں ایک ایک کھجور آتی تھی۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ کئی مجاہدین ایک ہی کھجور باری باری چوستے اور پانی پی کر گزر اوقات کرتے تھے۔ پھر پانی کا فقدان ہوا اور اونٹوں کی آلائش نچوڑ کر پینے کی نوبت آگئی۔ سواریوں کی ایسی قلت کے ایک ایک سواری پر دس دس آدمی اترتے چڑھتے جارہے تھے ۔ اس لیے اس لشکر کا نام ”جیش العسرۃ“ مشہور ہوا۔ ((الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ)) (الاية) تین صحابی جو جنگ میں حاضر نہ ہوسکے تین آدمی مقدور ہونے کے باوجود جہاد میں شریک نہ ہوسکے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ،ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ،مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ،کعب بن مالک رضی اللہ عنہ،سابقین انصار میں سے ہیں اور ان تہتر مخلصین میں سے جو عقبہ کی بیعت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان کے اخلاص میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ کوئی فسادِ نیّت نہ تھا ۔ بس بشریت کا تقاضا غالب آگیا اورنکلتے نکلتے دیر ہوگئی۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کا لشکر واپس آگیا۔