کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 156
((مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟)) ”اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے؟“ تو اس پیکر ایثار نے جواب دیا تھا: ((أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ)) ”اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے لیے چھوڑ آیا ہوں!“ انہیں اس بات کی معرفت تھی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی سب سے بڑا سرمایہ حیات ہے۔ جہاد میں شریک ہونے کے لیے منّت وزاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے بعض نادار مسلمان ا س بنا پر جانے سے رہ گئے کہ ان کے پاس سامان ِ سفر نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے روانہ ہورہے تھے ،تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ لوگ زار زارروتے تھے کہ ہمیں اس سعادت سے محروم نہ رکھئیے۔ اللہ کی راہ میں جان قربان کردینے کا یہ سنہری موقع ہے ۔ وہ منّتوں سے کہتے تھے کہ ہمیں بھی ساتھ لے چلیں مگر بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں کے حصّے میں ایک ایک سواری آئی تھی۔ ان کے لیے سواریوں پر گنجائش نہ ہوسکی۔ اور آپ نے معذرت چاہی ۔ اللہ کو ان کا یہ جذبہ ایثار پیارا معلوم ہواکہ اس نے اپنے آخری ،اور لافانی صحیفے میں ان کے ذکر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔ ((وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ)) (التوبه) اُن لوگوں پر تو کچھ گناہ نہیں جو آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں بھی سوار کرلیں،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا،اب میرے پاس کوئی سواری باقی نہیں رہی جس پر تمہیں سوار کرسکوں۔ وہ (کلیجے پر پتھر رکھ کر ) لوٹ گئے۔ مگر ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے،اس غم کے مارے کہ ان کے پاس خرچ نہیں کہ وہ ساتھ جاسکیں۔