کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 149
کیے ہیں۔ غرض یہ کہ دفاع اسلام کے ان بنیادی فرائض میں سے ہے جن کو ایک مسلمان ،مسلمان ہوتے ہوئے ترک کرنے کی کبھی جسارت نہیں کرسکتا۔ اگر ایک مسلمان کے دل میں رتی بھر ایمان بھی باقی ہے تو اللہ کا یہ حکم اسے کمربستہ کردینے کے لیے بس کرتا ہے۔ ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ)) (9:38) ”اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہو،توتمہارے پاؤں بوجھل ہوجاتے ہیں۔ اور تم زمین پر ڈھیر ہوجاتے ہو۔ کیا آخرت چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر مطمئن ہوبیٹھے ہو؟اگر یہی بات ہے تو یاد رکھو جس زندگی پر ریجھے ہوئے ہو،وہ آخرت کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہے۔ “ ساتھ ہی فرمایا: ((إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ)) یاد رکھو اگر تم نے اللہ کے حکم سے سر تابی کی اور وقت آنے پر بھی حق کی راہ میں نہ نکلے،تو اللہ تمہیں غلامی کے دردناک عذاب میں مبتلا کردے گا۔ اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو حق کی حمایت کے لیے کھڑا کرد ے گا۔ تم چھانٹ دیے جاؤ گے۔ حق تمہاری حمایت کا محتاج نہیں۔ تم ہی اپنی زندگی اور بقا کے لیے حق کے محتاج ہو۔ اسلام کی مخالفت اور لادین نظام حیات کی حمایت میں کافر ایک دوسرے کے ساتھی اورحامی ہیں۔ ((وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ)) جن لوگوں نے اسلام سے انکار کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ پس مسلمانوں کے لیے بدرجہ اول ناگزیر ٹھہرا کہ وہ باہم یاوری اور مددگاری کریں۔