کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 145
جُرم نہ تھا کہ وہ کہتے تھے۔ ہمارا رب اللہ ہی ہے۔
مسلمان بھائی کو ظلم سے نجات دلانا ضروری ہے
آج کشمیر کے بھائیوں کا جُرم فقط یہ ہے کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہیں۔
قرآن نے واضح اورغیرمبہم الفاظ میں کہا کہ اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت کمزوری اور بیچارگی کے باعث دشمنوں کے چنگل میں آگئی ہے اور اس چنگل سے اپنے آپ کو چھڑانے کی سکت نہیں رکھتی،تو ایسی حالت میں دوسرے مسلمانوں پر جو آزاد ہوں اور جنگ کی طاقت رکھتے ہوں،فرض ہو جاتا ہے کہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے جنگ کریں۔
((وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا)) (النساء:75)
”تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں،عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو کہتے ہیں اے ہمار ے ربّ!ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ ہم پر ظلم ڈھارہے ہیں اور اپنی خاص عنایت سے ہمارے لیے حامی اور مددگار بنا“
اس آیت کا انداز صاف بول رہا ہے کہ وہ لوگ جو ان مظلوموں کی یاوری ومددگاری نہیں کرتے خدا ان کی بے حسی پر سخت برہمی کا اظہار کررہا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مَا لَكُمْ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کو کیا ہوگیا ہے۔
دوسری جگہ اور زیادہ وضاحت سے تاکید کی:
((وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ)) (الانفال)