کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 144
دفاع کا فرضِ عظیم اسلام کے شرعی واجبات وفرائض میں سے ایک نہایت اہم اور اکثر حالتوں میں ایمان وکفر تک کا فیصلہ کردینے والا فرض دفاع ہے۔ دفاع سے مراد یہ ہے کہ جب بھی کسی مسلمان آبادی پر کوئی غیر مسلم گروہ یا حکومت حملہ آور ہو یا غاصبانہ قبضہ کرکے یا کسی مسلم آبادی پر ظلم ڈھائے،تو یکے بعد دیگرے تمام دُنیا کے مسلمان پر شرعاً فرض ہوجاتا ہے کہ دفاع کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں اور اس مسلم آبادی کو غیر مسلموں کے قبضہ واقتداء سے لڑ کر بچائیں اور اس مقصد عظیم کے لیے اپنی ساری قوتیں اور طاقتیں صرف کرڈالیں۔ اپنی تمام کوششوں کو اس کام کے لیے وقف کردیں جو ملک جس قدر اس مظلوم آبادی کے قریب ہے،اس پر ذمہ داری اسی قدر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ دفاع کے بارے میں پہلی آیت بقول اکابر مفسرین پہلی آیت جو فریضہ دفاع کے بارے میں اُتری سورہ حج کی یہ آیت ہے: ((إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍأُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ۗ.......)) ”اللہ تومومنوں پر سے ان کے دُشمنوں کو ہٹاتارہتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اس کی دی ہوئی قوت اس کی راہ میں صرف کرنے میں خیانت کرتے ہیں اور حد درجہ کفران نعمت کرتے ہیں۔ جن مسلمانوں سے لڑائی کی جارہی ہے۔ انہیں جنگ کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ان پر ظلم ڈھایا گیا اور اللہ مظلوموں کی مدد پر یقیناً قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ناحق اپنی آبادیوں سے نکال دیے گئے۔ اس کے سوا تو ان کا کوئی