کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 14
((إِذَا تَكَلَّمَ أَطْرَقَ جُلَسَاؤُهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْر)) جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گفتگو فرماتے تو آپ کے پاس بیٹھنے والے گردنوں کو جھکا لیتے تھے اور حرکت نہ کرتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یعنی حرکات فاضلہ نہ کرتے تھے۔ فالتو حرکت سے بھی اجتناب کرتے تھے۔ فالتوحرکت کو بھی خلافِ ادب جانتے تھے۔ دوستو! یہ بھی تو صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ عروہ بن مسعود صلح حدیبیہ کہ موقع پر جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو ساتھیوں سے کہا عجب منظر دیکھاہے وہاں۔ ((أنه لا يتوضأ إلا ابتَدَروا وَضُوءَه)) وہ جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرتا ہے۔ لوگ تبرکاً اور تیمناً اسے جسم پر ملتے ہیں۔ ((ولا يَبصُق بصاقًا إلا تلقَّوه بأكفِّهم)) اور ان کا لعاب دہن بھی گرتا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر گرتا ہے۔ ((ولا تَسقُط منه شعرة إلا ابتدروها)) ان کا کوئی بال بھی گرتا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر لپکتے ہیں۔ قرآن مجید پڑھ کر دیکھیں کہ وہ شخصیتیں جو اللہ کی ربوبیت کی مظہر ہیں اور انسان کی تربیت کرتی ہیں ان کا ادب ملحوظ رکھنے کی کس شدت سے تلقین کی گئی ہے۔ آپ دیکھیں کہ والدین جسمانی تربیت کرتے ہیں، ان کے متعلق فرمایا:۔ ((فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا)) ”دیکھو انہیں کبھی یہ بھی نہ کہنا کہ تُف ہے تم پر۔ یہ میری ربوبیت کے مظہر