کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 134
کائنات کی فلاح و بہبود کے لیے اُٹھا تھا اور جو دونوں جہاں کی سعادتیں بنی نوع انسان کی جھولی میں ڈالنا چاہتا تھا، ان تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پر راضی ہو گیا۔
قریش اور عرب کے سرداروں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا۔ ہم تمھارے پاس کیسے آکر بیٹھیں، تمھاری مجلس میں ہر وقت غریب مفلس اور نچلے طبقے کے لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنےپاس سے ہٹاؤ تو ہم آکر بیٹھیں گے۔ مگر وہ انسان جورنگ، نسل، خون اور خان کے بتوں کو توڑنے کے لیے آیا تھا اس نے ان سرداروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کردیا۔
تمام انسانوں کے لیے یکساں رحمت تھے
اس تحریک کی ایک اُبھری ہوئی خصوصیت یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ملک اپنی قوم اپنے قبیلے اپنے خاندان کے مفاد کو بنی نوع انسان کے مفاد پر ترجیح نہ دی۔ آپ ہر قسم کی کنبہ پروری اور اقربا نوازی سے برتر رہے۔ اسی بات نےدنیا والوں کو یقین دلایا کہ آپ تمام اقوام کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کی آواز پر ہر قسم کے انسانوں نے لبیک کہا۔ اگر آپ اپنے گھرانے کی برتری کے لیے کام کرتے تو غیر ہاشمیوں کو کیا پڑی تھی کہ آپ کا ساتھ دیتے ؟ اگر آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ قریش کی برتری اور اقتدار کو تو کسی طرح بچالوں تو غیر قریش عربوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کہ وہ اس کام میں شریک ہوتے۔ اگر آپ عرب کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھتے تو بلال حبشی رضی اللہ عنہ اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ اور سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کو کیا پڑی تھی کہ آپ کا ساتھ دیتے۔ وہ بات جس کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان آپ کی طرف کھنچتے چلے آئے آپ کی بے لوث خدا پرستی تھی اور آپ کا تمام ذاتی ، خاندانی اور نسلی مفادات