کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 132
پر آمادہ نہ ہوں، تو حکومت جیسے دوسرے حق حقداروں کو جبراً دلاتی ہے، یہ بھی غریبوں کو جبراً دلائے۔ ”تشکیل الٰہیات جدیدہ “میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا چھ بار ذکر کیاہے۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے محدث تھے، المحلیٰ کی چھٹی جلد میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ سے فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس فالتو سواری ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد غذا ہے، وہ ان لوگوں کو لوٹادے جن کے پاس غذا نہیں ہے۔ ص157۔ آپ غور کیجیے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا کہ عطا کر دیجیے یا بخش دیجئے بلکہ لوٹا نے کا لفظ استعمال فرمایا: اس لفظ کے استعمال سے یہ وضاحت فرما دی کہ تم حقداروں کو ان کا حق لوٹا رہے ہو کوئی احسان تو نہیں کر رہے ہو۔ ابو سعید خدری رضی ا للہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایک جنس اور مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا حتیٰ کہ ہمیں یقین آگیا فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ایک سال جب غلے کا شدید قحط ہوا۔ احکام صادرکیے کہ میں نے غلہ سٹاک کرنے کے مختلف مرکز بنا دیئے ہیں اور وہ تمام لوگ جن کے گھروں میں غلہ پڑا ہے۔ ان مرکزوں میں اس غلےکو اکٹھا کردیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہر گھر کے افراد کے تناسب کے اعتبار سے اس غلے کو مساوی طور پر تقسیم فرماتے رہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ان جاگیرداروں کو اس غلے کا کونسا معاوضہ دیا تھا۔ بلال بن حارث المزنی رضی اللہ عنہ کو ایک بہت بڑا رقبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب زرعی اصلاحات شروع کیں تو زمین کا وہ تمام حصہ جسے وہ کاشت نہ کر سکے، ان سے چھین لیا اور مسلمانوں میں اُسے بانٹ دیا۔ یہ واقعہ ”کتاب الخراج“میں بھی لکھا ہےاور”کنزالعمال“میں بھی ہے۔ میں پھر اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ بلال رضی اللہ عنہ بن حارث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےاس چھینی ہوئی زمین کا کوئی معاوضہ نہ دیا تھا۔ بعض دوستوں نے کہا کہ یہ