کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 131
کی قوت کو مناسب حددو کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق اور تولید ہو۔ (زمیندار 24/جون 1923ء) قرآن مجید بار بار دولت مندوں سے کہتا ہے کہ تمھارےمال میں غریبوں کا حق ہےیعنی تم ان پر کوئی احسان نہیں کرتے ہو۔ ((وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ)) ارض و سما کے ہم ہی مالک ہیں اور ((نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ))اور ہم ہی ہیں کہ تمھیں بھی اور انہیں بھی رزق دیتے ہیں، اسی لیے قرآن و حدیث میں بار بار کہا گیا کہ تمھارے مال میں غریبوں کا حق ہے: ((وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ)) (ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے) اور فرمایا: ((وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ)) (یعنی یتیموں اور مسکینوں کا حق انہیں دے دو) اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ((إِنَّ فِي المَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ)) (یقیناً مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لفظ ”حق“ہی استعمال فرمایا: ساری دقتیں اور دشواریاں دولت کو گردش میں لانے کے سلسلے میں اسی لیے اُبھرتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ ہمارے مال میں غریبوں کا حق ہے۔ حقدار کو حق دلانا ہر حکومت کافرض ہوتا ہے اور جب بھی کوئی حق غصب کرتا ہے۔ تو حکومت جبراً حقدار کو حق دلاتی ہے۔ اگر ہمیں یہ یقین آجائے کہ غریبوں اور مزدوروں کا ہمارے مال میں حق ہے تو منطقی اعتبار سے ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر غاصبان حق برضا و رغبت حقداروں کو ان کا حق دینے