کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 130
ہے تو آپ اس کی ضد میں آکر جھوٹ بولنے لگیں یہ نہیں کہ آپ کا حریف غریب مزدور اور کسان کی حمایت کرتا ہے تو آپ ان کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں یا ارتکازدولت کرنےوالوں کی حمایت کرنے لگیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حقیقی معنوں میں حکیم الامت تھے۔ اُنہوں نے مزدور اور کسان کی حمایت میں بھر پور آوازہ بلند کیا۔ ایک ایسا آوازہ جس میں سب آوازیں مد غم ہونے لگیں۔ ؎ آشنا اپنی حقیقت سے ہوا اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو اپنی نظم ”سرمایہ محنت“میں کہا ؎ دست ِدولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ اور اپنی نظم ”ارض“میں جاگیرداروں کو شدت سے جھنجھوڑا۔ ؎ دِہ خدایا! زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں میری نہیں اپنے ایک مضمون میں یوں رقمطراز ہیں: ”مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ ((فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا)) (اس کی نوازش سے تم بھائی بھائی ہو گئے) میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہو سکتے جب کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں۔ جس کا مقصود سر مایہ